علاقائی خبریں

حلال جانورکی قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے، پیر مقصود سعید اشرفی

رائیونڈ(شمشاد بھٹی سے)سنت ابراہیمی یعنی حلال جانورکی قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے،یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیونکہ قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر کے در حقیقت اپنے جذبہ عبودیت کا اظہار کرتا ہے،جامع نقشبندیہ مدرسہ اور مسجد مفتی مقبول احمد مین بازار المعروف ریلوے کالونی میں صاحبزادہ حضرت پیر مقصود احمد سعید اشرفی مہتم و خطیب جامع مسجد ہذا عیدالضحی کے خطبہ فرما رہے تھے،انہوں نے قربانی کے طریقہ کار سے اگاہ کرتے ہوئے کہا کہ چاہے قربانی ہو یا ویسے ہی ذَبْح کرنا ہو)سنّت یہ چلی آ رہی ہے کہ ذَبْح کرنے والا اور جانور دونوں قبلہ رُو ہوں، ہمارے عَلاقے(یعنی پاک و ہند) میں قِبلہ مغرِب میں ہے، اس لئے سرِذَبیحہ (یعنی جانور کا سر)جُنُوب کی طرف ہونا چاہئے تا کہ جانور بائیں (یعنی الٹے)پہلو لیٹا ہو،اور اس کی پیٹھ مشرِق کی طرف ہو نا چاہئے تا کہ اس کا مُنہ قبلے کی طرف ہو جائے،نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے، زکوٰۃ انسان کے مال وزر کی قربانی ہے، حج بیت اللہ انسان کی ہمت، مال و زر کی قربانی ہے،قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے،جانور ذبح کرکے قربانی دینے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام خواہشات نفسانیہ کو ایک ایک کر کے ذبح کر دیا جائے، اللہ تعالی نے ہر امت کیلئے قربانی مقرر فرمائی قربانی دین اسلام میں انتہائی اہمیت کے فرائض میں سے ہے، درحقیقت بندہ اپنی جان ومال کی قربانی دے کر اپنی بندگی کا اظہار اللہ تعالی سے کرتا ہے، اللہ تعالی کو اپنے بندے کی یہ ادا اس لیے بھی پسند ہے کیونکہ اس عمل میں بندے کو صرف اللہ کی خوشنودی اور رضا کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنا ہوتا ہے، عجیب منظر تھا جب باپ نے اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں، بتا تیری کیا مرضی ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے یہ رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گا ورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا،نہیں ایسا ہر گز نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمانبرداری دیکھئے وہ بیٹا کوئی عام بیٹا نہیں تھا وہ خلیل اللہ کا فرزند ارجمند تھا اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبہ پر فائز تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلب اطہر سے آقائے دو جہاں تاجدارانبیاحضرت محمد مصطفی ٰﷺ اپنے نورمبین سے اس جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے،اس لیے وارث نبوت نے بھی اطاعت کی حد کر دی، آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ ابا جان مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے،میری خطا کیا ہے جو آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں بلکہ قربان جاؤں اس بیٹے پر جس نے نہایت عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردنجھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے فرماں بردار بیٹے نے خدا کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور کہنے لگا کہ اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو انشا اللہ آپ مجھے صابر اور فرماں بردار پائیں گے،ہر آزمائش میں ثابت قدم اور کامیاب نکلے، اب لڑکے کو چھوڑ اور تیرے پاس جو یہ مینڈھا کھڑا ہے اس کو اپنے محبوب بیٹے کے بدلے میں ذبح کر، ہم نیکو کاروں کو اسی طرح اپنی رحمتوں اور نوازشوں سے نوازتے ہیں لہذا حضرت ابراہیم نے حکم خداوندی کی تعمیل کی اور اس مینڈھے کی قربانی کر کے امت مسلمہ کے لیئے تاریخ رقم کردی اور آج ہم حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی سنت اور حکم خدا وندی کی پیروی کتے ہیں اللہ رالعزت سن مسلمانوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ذریعہ نجات بن جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button