پولیٹیکل اینڈ کرنٹ افئیرز

ایک خستہ نظریاتی عمارت کا انہدام……..!!

حالیہ ایران و اسرائیل تصادم نے عالمی سیاست کے افق پر کئی نئی پرتیں وا کی ہیں، لیکن ایک گونج دار دھماکہ ایسا بھی سنائی دیا، جو نہ تل ابیب میں ہوا نہ اصفہان میں — وہ آواز تھی ایک نظریاتی عمارت کے زمین بوس ہونے کی، جو عشروں سے ہمارے ذہنوں میں بڑی چابک دستی سے تعمیر کی گئی تھی۔
یہ عمارت، جس کی بنیادیں 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں ڈالی گئیں، اس خیال پر استوار تھی کہ ایران اور اسرائیل دراصل "پردے کے پیچھے” ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں — دشمنی کا جو کھیل وہ عوام کے سامنے کھیلتے ہیں، وہ محض اہلِ عرب کو فریب دینے کے لیے ہے۔ گویا دونوں "نقلی دشمن” ہیں، اصل میں بھائی بھائی۔
حالیہ ایران اسرائیل تصادم نے جہاں مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا، وہیں ہمارے معاشرے کے فکری اساس پر بھی گہرا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ برسوں سے ہمارے ذہنوں میں ایک مفروضہ عمارت تعمیر کی جاتی رہی کہ ایران اور اسرائیل دراصل باطن میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں اور ان کی ظاہری دشمنی صرف عرب دنیا کو دھوکہ دینے کا کھیل ہے۔
یہ "عمارت” نہایت فکری شان سے استوار کی گئی تھی — افواہوں کی اینٹیں، سازشی بیانیوں کا سیمنٹ، اور جذباتی نعرہ بازی کا پلستر لگا کر۔ اس میں وہ سب لوگ رہائش پذیر تھے جو ہر عالمی واقعے کو کسی خفیہ معاہدے، رازداری یا سکرپٹ کا حصہ سمجھتے تھے۔ مگر جب میزائل اصفہان کی فضا میں گونجے اور ڈرون تل ابیب کی فضاؤں میں گرجے، تو اس پوری عمارت کے ستون ہل گئے۔ وہ نظریاتی خواب، جو ایک نسل نے پلکوں پر سجا رکھے تھے، بیدار حقیقتوں کی دھوپ میں پگھلنے لگے۔ یہ نظریہ، بعض حلقوں میں، اس شدت سے قبول کیا گیا کہ گویا عقیدے کا درجہ پا گیا۔ اس کے مکین وہ افراد تھے جو ہر واقعے میں "ماسٹر پلان” تلاش کرتے ہیں، اور ہر بمباری کو ایک "منصوبہ بند اسکرپٹ” کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہاں دلیل سے زیادہ یقین بولا کرتا تھا، اور اختلافِ رائے کو "سادہ لوحی” سمجھا جاتا تھا۔
تاہم، حالیہ جھڑپ میں جب اسرائیلی میزائل اصفہان کو چھونے لگے اور ایرانی ڈرون تل ابیب کی فضا میں گونجے، تو اس عمارت کے ستون لرز گئے۔ دونوں ممالک کی عسکری صلاحیتوں کی براہِ راست آزمائش نے ان مفروضات کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ وہ مفروضات جن پر پوری ایک نسل کی فکری تربیت کی گئی تھی۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ اس عمارت کا ملبہ نہ صرف زمینی حقائق کے بوجھ تلے دب چکا ہے بلکہ اس کے گرد و نواح کی دیگر فکری بستیاں بھی خطرے میں ہیں۔ لاکھوں ذہن، جو سالہا سال اس تصوراتی دنیا میں سانس لیتے رہے، اب حیرت و تذبذب کی کیفیت میں ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں؟ کیا ہم اس ملبے کو سمیٹ کر، حقیقت کی بنیاد پر ایک نئی اور پائیدار عمارت تعمیر کریں؟ یا پھر ایک اور بلند و بانگ مگر کھوکھلے جھوٹ کی عمارت کھڑی کر دیں؟ ایسی عمارت جو "ایران اسرائیل بھائی بھائی” سے بھی بلند ہو، اتنی بلند کہ دیکھنے والوں کی بصیرت دھندلا جائے، اور سچائی کہیں نیچے گم ہو جائے۔
ممکن ہے کچھ حضرات اب ایک نیا بیانیہ گھڑنے کی سعی کریں، کہ یہ جنگ محض خطے میں اثر و رسوخ کی ازسرِ نو تقسیم کا ہنر ہے، یا دونوں ممالک نے ایک "کنٹرولڈ جنگ” کے ذریعے عربوں کو نیا فریب دیا ہے، یا یہ کہ امریکہ کی رضا مندی سے سب کچھ وقوع پذیر ہوا، تاکہ کسی تیسرے فریق کو پیغام دیا جا سکے۔
لیکن سوال یہ ہے: آخر کب تک ہم ہر واقعے کو ایک سازش کی عینک سے دیکھتے رہیں گے؟ کب ہم یہ تسلیم کریں گے کہ عالمی سیاست میں دشمنی اور دوستی مستقل نہیں، صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں؟ ایران، اسرائیل، سعودی عرب یا کسی اور ریاست کو مقدس ہالہ پہنانا تاریخ اور عقل دونوں سے بغاوت ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم ذہنی تعصبات سے نکل کر حقیقت کی زمین پر قدم رکھیں۔ ہمیں ماننا ہو گا کہ قومیں اپنی اسٹرٹیجک ضروریات کے مطابق فیصلے کرتی ہیں، نہ کہ جذبات یا نعروں کی بنیاد پر۔ اور اگر ہم اس ملبے سے کوئی سبق سمیٹ سکیں، تو یہی کہ نظریاتی عمارتیں دلیل، تدبر اور تحقیق کی بنیاد پر بننی چاہییں — افواہوں، جذبات اور تعصبات پر نہیں۔
آج یہ سوال ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ کیا ہم ان نظریاتی ملبوں پر نئی تعمیر کریں گے؟ کیا ہم جھوٹ کی ایک اور اونچی مگر کھوکھلی عمارت کھڑی کریں گے، یا حقیقت پسندی، دلیل اور اصولوں پر مبنی ایک سادہ مگر مضبوط فکری مکان بنائیں گے؟
ایسے نازک موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کا اپنا اپنا موقف سامنے آیا ہے لیکن جماعت اسلامی کا موقف ہر قسم کے ابہام سے پاک اور دو ٹوک ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن، امیر جماعت اسلامی پاکستان نے واضح الفاظ میں کہا ہے:
"ایران اگر اسرائیل کے خلاف حقیقی مزاحمت کر رہا ہے تو امت اس کے ساتھ کھڑی ہو گی، لیکن اگر یہ محض ایک اسٹیجڈ شو ہے تو اسے بے نقاب کرنا امت کی ذمہ داری ہے۔”
اس تحریر کا مقصد نہ تو کسی ریاست کو دیوتا بنانا ہے، نہ ہی کسی قوم کو شیطان ٹھہرانا۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم بحیثیت اُمّت، سچائی، اصول، اور دانش پر مبنی موقف اختیار کریں — اور اس ملبے سے سیکھ کر ایسی عمارتیں تعمیر کریں جو وقت کی آزمائش میں کھڑی رہ سکیں۔

(نوٹ : ادارہ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں‌)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button