کرائمز

ملائیشیاء،ویتنام کے ریگولیٹری نظام سے سیکھا جائے ‘ خادم حسین

لاہور( آئی این پی)فاﺅنڈر ز گروپ کے سرگرم رکن ،پاکستان سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ، سینئر نائب صدر فیروز پور روڈ بورڈاورسابق ممبر لاہور چیمبر آف کامرس خادم حسین نے کہا ہے کہجو لوگ قوانین کی پاسداری کرتے ہیں سزا بھی انہی کو ملتی ہے،،کاروبار کرنے میں آسانی کے دعوے تو کیے جاتے ہیںمگر زمینی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، وہ کاروبار جو رجسٹرڈ ہیں، دستاویزی ہیں اور باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں انہیں ہی شکنجے میں لایا جاتا ہے ۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریگولیٹری بوجھ بہت زیادہ ہے جو کہ معیشت کے 67 فیصد سے بھی زائد حصے پر محیط ہے، صرف وفاقی سطح پر 100 سے زیادہ ریگولیٹری ادارے فعال ہیں لہٰذایہ حیرت کی بات نہیں کہ کمپنیاں مستقل رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرتی ہیں،بعض شعبوں میں صرف قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کی لاگت جی ڈی پی کے 40 فیصد کے قریب پہنچ جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ بدتر یہ ہے کہ ان میں سے کئی ضوابط حقیقی مسائل کو حل ہی نہیں کرتے،ان کا مقصد عام طور پر اصلاحات نہیں بلکہ مخصوص مفادات کی خدمت یا ادارہ جاتی کنٹرول کو برقرار رکھنا ہوتا ہے جو ادارے ان ضوابط کی نگرانی کرتے ہیں ان کے پاس اکثر ضروری مہارت کا فقدان ہوتا ہے ان میں سے کئی کی سربراہی ریٹائرڈ افسران کر رہے ہوتے ہیں، جنہیں اگرچہ طویل بیوروکریٹک تجربہ ہوتا ہے، مگر جدید کاروباری ماحول اور مارکیٹ کے عملی تقاضوں کا فہم کم ہوتا ہے۔انہوں نے تجویز یتے ہوئے کہا کہ ملائیشیاءاور ویتنام جیسے ممالک سے یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ ریگولیٹری نظام کس طرح ترقی کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے، دونوں ممالک نے سرمایہ کاری سے متعلق اداروں کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ فعال طور پر کاروباروں کی معاونت کر سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button