پولیٹیکل اینڈ کرنٹ افئیرز

"مذہب بھائی / پراسرار عقیدہ یا روحانی دھوکہ؟ "

پاکستان میں مذہبی تنوع ہمیشہ سے ایک زندہ موضوع رہا ہے، جہاں ایک طرف مروجہ مسالک اور مکاتب فکر اپنی جڑیں گہرائی تک پھیلا چکے ہیں، وہیں وقتاً فوقتاً کچھ ایسے نئے عقائد اور روحانی تحریکیں بھی جنم لیتی رہی ہیں جن کے بارے میں عوام کو مکمل آگاہی حاصل نہیں ہوتی۔ انہی میں سے ایک نئی اور پراسرار تحریک جسے عوام الناس کی زبان میں "مذہب بھائی” یا محض "بھائیوں والا مذہب” کہا جاتا ہے، حالیہ برسوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں خاموشی سے فروغ پا رہی ہے۔ اس تحریک کی خاص بات اس کی پراسراریت، اندرونی ساخت، خود ساختہ روحانی درجہ بندی، اور نجات دہندہ "بھائی” کا تصور ہے، جو بظاہر ایک فردِ واحد نہیں بلکہ ایک علامتی ہستی ہے، مگر حقیقت میں ایک گروہ یا خفیہ قیادت کے زیر اثر پروان چڑھتی جا رہی ہے۔مذہب بھائی کی بنیاد ظاہراً "محبت، خدمت، اطاعت اور بھائی چارے” پر رکھی گئی ہے۔ مگر اس کے عقائد روایتی اسلامی فکر سے خاصے مختلف اور کئی حوالوں سے متصادم بھی ہیں۔ ان کے مطابق، "بھائی” ایک ایسا روحانی نکتہ ہے جو خالق سے قربت کا ذریعہ ہے۔ "بھائی” کے دیدار کو خدا کے دیدار سے بڑھ کر سمجھا جاتا ہے۔ اس مذہب کے ماننے والوں کا ایمان ہے کہ اللہ کی اصل پہچان "بھائی” کے بغیر ممکن نہیں، اور دین کے تمام اسرار صرف "بھائی” کی ذات سے کھلتے ہیں۔ یہ تصور تصوف کی روایتی اصطلاح "شیخ” یا "مرشد کامل” سے بھی مختلف ہے، کیونکہ یہاں "بھائی” محض رہنما نہیں بلکہ تجلیِ حق کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ اس عقیدے کے ماننے والے اکثر اپنے چہروں پر مسکراہٹیں سجائے، سادگی سے بات کرتے، عام لوگوں میں گھل مل کر رہتے ہیں، مگر ان کے بیچ کوئی نیا آنے والا جلد ان کی زبان، انداز، اور ذہن سازی کی تکنیکوں سے حیران ہو جاتا ہے۔یہ تحریک عمومی طور پر متوسط طبقے اور ان افراد کو اپنا ہمنوا بناتی ہے جو یا تو دین سے ناامید ہو چکے ہوتے ہیں، یا روحانی خلا کا شکار ہوتے ہیں۔ "بھائی” کے ماننے والے اکثر قرآن و حدیث کا سہارا کم لیتے ہیں اور زیادہ تر "بھائی کی زبان” اور اس کے اقوال کو حرفِ آخر مانتے ہیں۔ ان کے حلقوں میں "بھائی کا کلام” باقاعدہ تلاوت کی صورت میں پڑھا جاتا ہے، جو اکثر رمز و کنایہ، صوفیانہ استعارات اور خودساختہ روحانی لغات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کلام کو نازل شدہ نور کہا جاتا ہے، جو انسان کے باطن کو پاک کرتا ہے اور ظاہر کی شریعت کی قیدوں سے آزاد کرتا ہےپاکستان کے مختلف شہروں جیسے لاہور، کراچی، فیصل آباد، حیدرآباد، اور راولپنڈی میں ان کے مراکز قائم ہو چکے ہیں جنہیں وہ "نور گھر” یا "بھائی گھر” کہتے ہیں۔ ان گھروں میں عام افراد کو خوش آمدید کہا جاتا ہے، چائے بسکٹ پیش کیے جاتے ہیں، موسیقیت سے بھرپور ذکر کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، اور ایک روحانی فضا میں "بھائی” کی تعریف و توصیف کا چرچا ہوتا ہے۔ ان محفلوں میں ایک خاص تکنیک کے ذریعے نئے آنے والوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے، جس میں "آپ بہت خاص ہو”، "اللہ نے تمہیں چن لیا ہے”، "یہ دنیا فریب ہے، اصل حقیقت بھائی ہے”، جیسے نعرے دہرا کر فرد کی سابقہ شناخت اور دینی وابستگی کو غیر اہم بنا دیا جاتا ہے۔اس تحریک کی خاص بات ان کی منظم خاموشی ہے۔ ان کے پیروکار سوشل میڈیا پر عام طور پر خود کو ظاہر نہیں کرتے، نہ ہی کسی علمی یا فقہی مباحثے میں الجھتے ہیں۔ ان کی مکمل توجہ "بھائی” کی تعریف، محبت، اور اطاعت پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ عقیدہ رفتہ رفتہ اپنے ماننے والوں کو دینی احکام، فرائض و سنن، اور شعائر سے دور کر دیتا ہے۔ شریعت کو "ظاہر کا کھیل” اور "بھائی کے لیے بچگانہ کھیل” قرار دیا جاتا ہے، اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ "بھائی” کے سچے پیروکار شریعت سے ماورا مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں صرف اطاعتِ بھائی ہی اصل دین ہوتا ہے۔پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی اسکالرز نے تاحال اس تحریک پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی، شاید اس لیے کہ یہ تحریک بظاہر امن پسند، غیرفتنہ پرور، اور خاموشی سے کام کرنے والی لگتی ہے۔ مگر اندرونِ خانہ یہ تحریک افراد کے عقیدے، ذہن، اور زندگی کو مکمل طور پر بدل دیتی ہے۔ کئی ایسے نوجوان جو دینی مدارس یا جامعات سے منسلک تھے، اب اس تحریک کے زیر اثر آ کر دین سے مکمل لاتعلق ہو چکے ہیں، یہاں تک کہ پانچ وقت کی نماز کو بھی "ظاہری عمل” قرار دے کر ترک کر بیٹھے ہیں۔اس تحریک کا ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں عورتوں کو "نورانی ماں”، "باجی” یا "روحانی مہارانی” جیسے القابات دے کر خاص حیثیت دی جاتی ہے، مگر یہ حیثیت بھی ایک خاص روحانی درجہ بندی کے تحت مشروط ہوتی ہے۔ خواتین کے لیے مخصوص الگ حلقے بنائے جاتے ہیں جہاں ان کی تربیت "بھائی کی زوجیت” جیسے پراسرار خیالات پر کی جاتی ہے، جن میں عقیدت کی آڑ میں بعض اوقات جسمانی و نفسیاتی استحصال کی شکایات بھی موصول ہو چکی ہیں۔ مگر خوف، عقیدت اور شرمندگی کے باعث بیشتر متاثرین خاموش رہتے ہیں۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس تحریک کے بانی یا قائدین کا چہرہ عام لوگوں کو دکھایا نہیں جاتا۔ بعض جگہوں پر تو یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ "بھائی” نظر نہیں آتا بلکہ دل پر ظاہر ہوتا ہے، اور وہ ہر جگہ ہے، ہر دل میں ہے، ہر سانس میں ہے۔ اس عقیدے کو بنیاد بنا کر افراد کو مالی عطیات دینے، گھریلو تعلقات سے دور ہونے، اور حتیٰ کہ والدین و شریک حیات سے بھی کنارہ کشی کی ترغیب دی جاتی ہے، کیونکہ وہ "بھائی کی راہ میں رکاوٹ” بن سکتے ہیں۔پاکستانی معاشرے میں جہاں جہالت، روحانی خلا، اور دینی الجھنیں عام ہیں، وہاں اس قسم کی تحریکیں تیزی سے پنپ سکتی ہیں۔ حکومت اور علما پر لازم ہے کہ وہ اس تحریک کا علمی و تحقیقی تجزیہ کریں، اس کی جڑوں تک پہنچیں، اور عوام الناس کو اس کے فکری خطرات سے آگاہ کریں۔ محض "فرقہ واریت” کے اندیشے سے خاموش رہنا دراصل اس آگ کو ہوا دینا ہے جو آنے والے وقتوں میں پورے عقیدے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔بعض تجزیہ نگار اس تحریک کو بیرونی ایجنڈے کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے تاکہ مسلمانوں کو فقہی، فکری اور روحانی لحاظ سے مکمل الجھن میں ڈال دیا جائے اور انھیں عمل، تحقیق اور فکر سے کاٹ کر صرف ایک شخص یا خیال کی غلامی میں دے دیا جائے۔آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا "مذہب بھائی” ایک حقیقی روحانی راستہ ہے یا صرف ایک خودساختہ خواب، جو ایک پر اسرار نیند کی طرح انسان کو اپنی اصل شناخت سے محروم کر دیتا ہے؟ کیا اللہ کی پہچان صرف "بھائی” سے ممکن ہے، یا قرآن، سنت، اور ائمہ کی رہنمائی ہی اصل نجات کا ذریعہ ہے؟ عوام کو چاہیے کہ وہ ایسے گروہوں کی حقیقت کو خود پرکھیں، قرآن کا ترجمہ خود پڑھیں، دین کو مولوی یا "بھائی” کے سپرد نہ کریں بلکہ خود شعور، عقل، اور تحقیق سے سمجھیں۔ کیونکہ اللہ نے عقل دی ہے، قرآن نازل فرمایا ہے، اور نبی کریم ﷺ کو بھیجا ہے، تاکہ کوئی بہانہ نہ رہے۔ اگر ہم پھر بھی کسی پراسرار "بھائی” کے پیچھے چلتے رہے، تو ہم دین کی اصل روح سے دور اور گمراہی کے بہت قریب ہوتے جائیں گے۔یہ تحریر کسی خاص شخص، گروہ یا تنظیم کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے لکھی گئی ہے، تاکہ ہم مذہب کے نام پر ہو رہے فکری استحصال کو پہچان سکیں اور اپنی آئندہ نسلوں کو ایک صحت مند، تحقیق پر مبنی، اور شعوری دین دے سکیں، نہ کہ پراسراریت، اندھی عقیدت، اور غیر قرآنی تصورِ خدا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button