
گلیمر اڈا اور ای پی اے سرٹیفکیٹ کی تجدید ۔۔۔۔۔!!
بالآخر صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، مانگا رائےونڈ اڈا گلیمر اور فیکٹریوں کے بیچ واقع وہ بدقسمت علاقہ جہاں رہنا کسی انسان نہیں بلکہ حشرات الارض کے لیے بھی سزا بن چکا ہے۔ وہاں کی سڑکیں، گلیاں، دوکانیں، بازار، اسکول، مساجد، سب کے سب کیمیکل زدہ گندے پانی سے ہر وقت بھرے رہتے ہیں۔ وہ زہریلا پانی جو فیکٹریوں کے سیوریج سسٹم سے نکل کر بغیر کسی روک ٹوک، بغیر کسی فلٹریشن، بغیر کسی نگہبانی کے سیدھا عوامی گزرگاہوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ صرف آلودگی نہیں بلکہ کھلی دشمنی ہے انسانی صحت سے، عوام کی جانوں سے، بچوں کے مستقبل سے۔ یہاں کے دوکاندار، رہائشی، بزرگ، عورتیں اور معصوم بچے روز صبح زہر آلود فضا میں آنکھ کھولتے ہیں، گندے پانی کے کیچڑ سے گزر کر اسکول یا کام کی راہ لیتے ہیں، اور شام کو جب لوٹتے ہیں تو جوتوں کے ساتھ بیماریاں، کپڑوں کے ساتھ بدبو اور دماغ کے ساتھ مایوسی لے کر آتے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی؟ جواب ندارد۔ انتظامیہ کی غیرت؟ مکمل مفلوج۔ لگتا ہے جیسے تمام ذمہ دار ادارے اجتماعی غشی میں مبتلا ہیں یا پھر مبینہ طور پر ان فیکٹری مالکان کے وظیفہ خوار بن چکے ہیں۔ ٹاؤن انتظامیہ، محکمہ ماحولیات، محکمہ صحت، ضلعی حکومت، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ہائی وے اتھارٹی، سب ایک دوسرے کی طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں اور حقیقت میں سب نے ملی بھگت سے ظلم کی یہ مشینری چلنے دی ہے۔اس علاقے کا حال اب "نکاسیٔ آب کے نظام کی تباہی” سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ یہ کھلا جنگی محاذ ہے جہاں انسانی حقوق کو کیمیکل میں گھول کر بہایا جا رہا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے وہ تمام نمائندے جو ووٹ لینے کے وقت "عوام کے خادم” بنے پھرتے تھے، آج عوام کی دُہائی پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اپنی آنکھیں بند کرکے اقتدار کے ٹھنڈے کمروں میں جا چھپے ہیں۔ مانگا رائےونڈ کے عوام کا جرم فقط اتنا ہے کہ انہوں نے ان نمائندوں پر اعتبار کیا، ان کے وعدوں پر بھروسہ کیا، ان کے بینروں، سلوگنز اور تقریروں پر یقین کیا۔ بدلے میں کیا ملا؟ گندے پانی کی دلدل، فضا میں زہر، جسموں میں بیماری، اور دلوں میں بے بسی۔اہم بات یہ ہے کہ اب تو میڈیا بھی شاید کسی مصلحت یا خوف کا شکار ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کے رپورٹرز اس مسئلے پر ایک خبر چلانے سے گریزاں ہیں، شاید اس لیے کہ اشتہاری سرمایہ داروں کے فیکٹریوں سے ان کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف سیلفی مافیا، لائیکس اور فالوورز کی دوڑ میں لگا سوشل میڈیا، اس علاقے کی درد بھری سسکیوں پر خاموش تماشائی ہے۔ جو لوگ چند ماہ پہلے "سیوریج ریفارمز” کے نام پر لاکھوں کی اسکیمیں لے کر آئے تھے، آج ان کا نام لینے والا کوئی نہیں۔ رہی سہی کسر وہ سوشل میڈیا کارکنان پوری کر دیتے ہیں جو ہر حکومتی نمائندے کی ہر سانس پر "جی حضور جی حضور” کی تسبیح پڑھتے ہیں۔ ان میں سے کسی میں اتنی جرات نہیں کہ مانگا رائےونڈ اڈا کی اس ماحولیاتی نسل کشی پر آواز بلند کرے۔ وہ نوجوان جو اپنے نمائندوں کے ساتھ تصویریں بنا کر اپنے آپ کو ہیرو سمجھتے ہیں، کیا ان میں سے کوئی ایک شخص گندے پانی میں اتر کر فیس بک لائیو کرے گا؟ کیا کوئی یوٹیوبر اس تباہی کی ڈاکیومینٹری بنائے گا؟ ہرگز نہیں، کیونکہ یہاں ووٹ لینے والے آتے ہیں، وعدے کر کے چلے جاتے ہیں، اور جب معاملہ گند، بدبو، بیمار بچوں، اور مجبور عوام کا ہوتا ہے تو وہ اپنے فون آف کر دیتے ہیں۔اب ہم حکومتِ پنجاب سے، وزیرِ اعلیٰ سے، وزیرِ ماحولیات سے، وزیرِ صحت سے، اور ہائی وے اتھارٹی سے دو ٹوک مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر واقعی آپ انسانوں کے خادم ہیں تو فوری طور پر یہاں ہنگامی بنیادوں پرتمام فیکٹریوں کے زہریلے پانی کا مستقل بندوبست کیا جائے اور ان سے ای پی اے سرٹیفکیٹ کی تجدید کی جائے۔ایک جامع نکاسیٔ آب منصوبہ فوری شروع کیا جائے، جو سڑکوں اور گلیوں سے زہریلا پانی صاف کرے۔متاثرہ علاقوں میں موبائل کلینک اور ہنگامی میڈیکل کیمپس لگائے جائیں۔فیکٹری مالکان، ٹاؤن افسران اور محکمہ ماحولیات کے افسران کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے جائیں۔قومی اور صوبائی نمائندگان کو سات دن کے اندر اندر خود اس جگہ کا دورہ کرنے کا پابند بنایا جائے


