شوگر انڈسٹری کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ
لاہور( آئی این پی)پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے وفاقی حکومت سے شوگر انڈسٹری کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شوگر انڈسٹری ٹیکسٹائل کے بعد پاکستان میں دوسری بڑی زرعی صنعت ہے جو کرشنگ سیزن کے دوران یہ زراعت، ٹرانسپورٹ، ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹوں میں 1000 ارب کی براہ راست اور بالواسطہ کاروباری سرگرمیاں پیدا کرتی ہے ،یہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کو براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 225 بلین روپے ادا کرتی ہے اور ہماری قومی معیشت کو 4 ارب ڈالر مالیت کا درآمدی متبادل فراہم کرتی ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جنرل باڈی کا اجلاس گزشتہ روز منعقد ہوا ۔ترجمان کے مطابق شوگر انڈسٹری گنے کی پھوک کے ذریعے پیدا کردہ اپنی توانائی کو استعمال کرتی ہے جس کے ذریعے اسٹیل کی ایک الائیڈ انڈسٹری بھی قائم ہو چکی ہے اور پیدا شدہ بجلی نیشنل گرڈ کو بھی برآمد کی جا رہی ہے۔ سازگار پالیسی مداخلت سے گنے کی ذیلی مصنوعات پر منحصر ایک صنعتی چین بن جائے گی جیسا کہ بہت سے دوسرے ممالک میں ہوا ہے۔ چینی بنانے والے دو بڑے ملک برازیل اور بھارت ایتھانول کو ایندھن کے طور پر گاڑیوں میں استعمال کر رہے ہیں ۔ ہم بھی ایسا کر کے اپنا قیمتی زرِمبادلہ بچا سکتے ہیں جو ہمیں پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں 2009 میں ایتھنول کی پالیسی بنائی گئی جسے بعد میں بند کر دیا گیا اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بائیو ایتھانول کی موجودہ صلاحیت ملک میں پٹرول کی کل کھپت کا 7 فیصد پوراکرنے کیلئے کافی ہے۔ترجمان نے کہاکہ دو انتہائی اہم زرعی شعبے چاول اور مکئی مکمل ڈی ریگولیٹڈہیں اور اس کے بعد صرف چاول کی برآمدات سے تقریباً 5 ارب ڈالر حاصل ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں چاول اور مکئی کی درآمد اور برآمد پر کوئی پابندی نہیں ۔ دونوں شعبے آزاد معیشت کے اصولوں پر کام کرتے ہیں اور بہترین کام کر رہے ہیں۔ چاول اور مکئی کے کاشتکاروں کو بین الاقوامی قیمتیں ملتی ہیں جس سے تحقیق اور ترقی کی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور بہتر پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں گنے کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ اور اس کی مٹھاس میں بہتری کیلئے گنے کی نئی اقسام تیار کرنے کے حوالے سے بہت کم کوششیں کی گئی ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ شوگر سیکٹر کی ڈی ریگولیشن کے حوالے سے مستقل پالیسی اپنائے تاکہ یہ چینی کی درآمدات سے رکاوٹ، مجموعی کاروباری سرگرمیوں، روزگار، ٹیکس ریونیو اور فاضل چینی کی باقاعدہ برآمدات سے زرِمبادلہ میں اضافہ کا ذریعہ بنا رہے۔شوگر انڈسٹری نے پہلے بھی حکومت کے ساتھ کئی میٹنگز اور 17 جولائی 2025 کو شوگر ایڈوائزری بورڈ کی میٹنگ میں بھی شوگر انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کی درخواست کی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے شوگر سیکٹر کی ڈی ریگولیشن پر کمیٹی کی تشکیل ایک خوش آئند قدم ہے اور امید ہے کہ دیگر زرعی شعبوں کی طرح شوگر سیکٹر کو بھی ملکی ترقی کیلئے اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔