
رمضان بٹ کا عزم/ روشن لاہور …….!!
بجلی چوری کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے والی لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے گزشتہ مالی سال 2023-24 کے دوران جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں، وہ صرف ایک ادارے کی محنت کا نہیں بلکہ پورے سسٹم کی اصلاح کی غمازی کرتے ہیں، جہاں لائن لاسز میں کمی واقع ہوکر 13.4 فیصد تک آنا کوئی معمولی کامیابی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کی کہانی بے شمار فیلڈ ورکروں، افسران، منصوبہ سازوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شبانہ روز محنت کا خلاصہ ہے، جس کا سب سے بڑا فائدہ ایک عام صارف کو پہنچا ہے جو ہر ماہ بل بھر کر سسٹم کا حصہ بنا رہتا ہے، یہ حقیقت کہ پچھلے سال 2 لاکھ 17 ہزار سے زائد بجلی چوری کے کیسز رپورٹ ہوئے اور ان میں سے 36 کروڑ یونٹ چارج کرکے 6 ارب روپے کی خطیر ریکوری کی گئی، یہ ثابت کرتی ہے کہ لیسکو نے نہ صرف کاغذی کارروائی کی بلکہ زمینی سطح پر جا کر اس ناسور کے خلاف اقدامات کیے، بجلی چوری ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف ملکی معیشت کو کھوکھلا کرتا ہے بلکہ ایماندار صارفین کے اعتماد کو بھی مجروح کرتا ہے، کیونکہ ان کی جیب سے وہ قیمت نکالی جاتی ہے جو چور بچا لیتے ہیں، اور یہی وہ لمحۂ فکریہ ہے جس نے لیسکو جیسے ادارے کو مجبور کیا کہ وہ محض تنقید برداشت نہ کرے بلکہ عملی اقدامات سے جواب دے، یہی وجہ ہے کہ رواں مالی سال کے آغاز میں ہی 95 ہزار اے ایم آئی (ایڈوانس میٹرنگ انفراسٹرکچر) سمارٹ میٹرز ہائی لاسز فیڈرز پر نصب کیے جا چکے ہیں تاکہ نہ صرف بجلی چوری کو روکا جا سکے بلکہ بجلی کے ضیاع جیسے سسٹم کی خامیوں کو بھی ٹریک کرکے دور کیا جا سکے، یہ سمارٹ میٹرز جہاں صارفین کو درست بلنگ کی ضمانت دیتے ہیں وہیں خود لیسکو کو ہر لمحے کی نگرانی کا اختیار بھی دیتے ہیں، بجلی چوری کا معاملہ صرف ایک ٹیکنیکل مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی و معاشی المیہ بھی ہے، جب لیسکو چیف اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ غربت اور بیروزگاری بجلی چوری کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں تو وہ دراصل ایک ایسے معاشرتی سچ کو اجاگر کرتے ہیں جس سے نظریں چرا کر ہم مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتے، یہ کہنا آسان ہے کہ لوگ چور ہیں مگر یہ نہیں پوچھا جاتا کہ وہ چوری پر مجبور کیوں ہوئے، لیسکو نے اس نازک توازن کو سمجھتے ہوئے جہاں اپنی کارکردگی بڑھائی وہیں حساس پہلوؤں کو بھی نظرانداز نہیں کیا، ایف آئی اے اور رینجرز کی مدد سے جس انداز میں انسدادِ بجلی چوری کی مہم کو منطقی انجام تک پہنچایا جا رہا ہے وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ دیگر بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال بھی ہے، لیکن اس پوری صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر کن بات یہ ہے کہ لیسکو نے اس جنگ کو صرف ادارہ جاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ صارفین کو بہتر سروسز فراہم کرنے کے عزم کے ساتھ جوڑا ہے، کیونکہ جب چوری کم ہوگی تو بجلی کا بوجھ بھی کم ہوگا، نظام میں شفافیت بڑھے گی، نئے منصوبے شروع ہوں گے، اور سب سے اہم بات یہ کہ صارفین کا اعتماد بحال ہوگا، یہ اعتماد ہی وہ سرمایہ ہے جس پر پورا پاور سیکٹر کھڑا ہے، ورنہ تو میگا واٹ کی گنتی اور لائن لاسز کے چارٹ محض فائلوں کی زینت بن کر رہ جاتے ہیں، آج جب لیسکو میدانِ عمل میں اپنی کارکردگی کے نتائج کے ساتھ کھڑی ہے تو اسے صرف داد نہیں، تعاون کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ بجلی چوری محض میٹر کی چالاکی کا نام نہیں بلکہ یہ معاشرے کی اخلاقی و مالی زوال پذیری کی علامت ہے، جس کا سدباب صرف پولیس کی وردی یا میٹر کی تبدیلی سے نہیں بلکہ تعلیم، روزگار، اور انصاف پر مبنی معاشرتی ڈھانچے کی تعمیر سے ممکن ہے، لیسکو کی موجودہ حکمتِ عملی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ادارہ اس مسئلے کو صرف ریونیو کی نظر سے نہیں بلکہ سماجی ذمہ داری کی نظر سے بھی دیکھ رہا ہے، یہی وژن اگر برقرار رہا اور حکومتی سرپرستی بدستور میسر رہی تو وہ دن دور نہیں جب نہ صرف بجلی چوری کی شرح مزید نیچے آئے گی بلکہ بجلی کی دستیابی، قیمت، اور معیار میں بھی وہ بہتری آئے گی جس کا خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے، آج لیسکو نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ اگر ادارے چاہیں تو مافیا ہار سکتے ہیں، اگر ارادے مضبوط ہوں تو چور پکڑے جا سکتے ہیں، اگر وژن واضح ہو تو ہر فیڈر روشن ہو سکتا ہے، اب وقت ہے کہ عوام بھی اس مہم کا حصہ بنیں، اپنے آس پاس بجلی چوری کے کسی بھی واقعے کی اطلاع دیں، شکایت کریں، گواہی دیں، کیونکہ یہ ملک ہمارا ہے، بجلی ہماری ہے، بل بھی ہمارا ہے اور مستقبل بھی، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ روشن کمروں میں پڑھے، پنکھے کے نیچے سوئے، اور اندھیروں سے نہ ڈرے تو ہمیں چوروں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا، کیونکہ جو خاموشی سے چوری برداشت کرتا ہے وہ بھی کسی نہ کسی طرح چور کا مددگار بن جاتا ہے، آج لیسکو نے جو قدم اٹھایا ہے وہ ایک ادارے کی حدود سے باہر نکل کر قومی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے، اب یہ عوام پر ہے کہ وہ اس میں کیا کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ بجلی کا سفر صرف تاروں میں نہیں، شعور میں بھی ہوتا ہے، اور یہ شعور اگر جاگ جائے تو نہ کوئی لائن لاسز ہوتا ہے نہ کوئی چوری، صرف ایک روشن پاکستان ہوتا ہے۔



