
لاہور ڈوب گیا ،ذمہ دار کون ؟؟؟؟؟
پنجاب کی سرزمین اس وقت ایک بار پھر دریاؤں کی تغیانی کی لپیٹ میں ہے اور خصوصاً دریا راوی کا بپھرتا ہوا پانی شاہدرہ سے لے کر مانگا منڈی تک ایک ایسے طوفان کی صورت اختیار کر چکا ہے جس نے بستیاں اجاڑ دیں، کھیت نگل لیے، مویشی بہا دیے اور گھروں کو قبرستان بنا دیا، گلیاں ندی نالوں میں ڈھل گئیں اور جدید رہائشی منصوبے جو کل تک جنت کے خواب بیچ رہے تھے آج جہنم کا منظر پیش کر رہے ہیں، پارک ویو، تھیم پارک اور ان جیسی دیگر سوسائٹیز جو کبھی بڑے بڑے اشتہارات میں خوشنما نعروں کے ساتھ عوام کو لبھاتی تھیں اب پانی کے بے رحم ریلے میں بہہ کر یہ بتا رہی ہیں کہ قدرت کو دھوکہ دینا ممکن نہیں، دریا کے قدرتی بہاؤ کے سامنے بند باندھ کر خوابوں کے شہر بسانے والے سرمایہ دار اور انہیں اپروو کرنے والے افسران ہی آج کی اس قیامت کے اصل مجرم ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر بار یہ جرم دہرانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور ہر بار ملبہ قدرت پر ڈال کر بات ختم کر دی جاتی ہے، مگر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دریاؤں کے کنارے زمینوں پر تعمیرات کی اجازت دینے والے ادارے، فائلوں پر دستخط کرنے والے بیوروکریٹس اور طاقتور سرمایہ دار ہی ان سسکتی، ڈوبتی اور لڑکھڑاتی زندگیوں کے اصل ذمہ دار ہیں، وہ زندگیاں جو آج کشتیوں کے کونے تھامے ہوئے ہیں، وہ مائیں جو اپنے بچوں کو گود میں لیے سسک رہی ہیں، وہ بزرگ جو ٹوٹے گھروں کو حسرت بھری آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، وہ مزدور جو کل کی روٹی کا سوال لیے پانی کی لہروں پر بہتے جارہے ہیں اور وہ نوجوان جن کی محنت کے پھل کھیتوں سمیت بہہ گئے ہیں، ان سب کے دکھ درد کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، یہ وہ مناظر ہیں جو دیکھنے والے کے دل کو دہلا دیتے ہیں، آنکھوں کو نم اور سوچوں کو بے چین کر دیتے ہیں، ان لمحوں میں زندگی واقعی تیرتی، ڈوبتی اور سسکتی دکھائی دیتی ہے، مگر اس قیامت خیز منظر میں انسانیت کی ایک کرن بھی نظر آئی اور وہ تھی الخدمت فاؤنڈیشن کی بے مثال خدمات جنہوں نے اپنی روایتی قربانی اور جذبۂ خدمت کے ساتھ متاثرین کو سہارا دیا، کہیں رضاکار کشتیوں میں خواتین اور بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے تھے، کہیں راشن، صاف پانی اور ادویات پہنچا رہے تھے اور کہیں خالی ہاتھ بیٹھے لوگوں کو امید دلا رہے تھے، اسی طرح ریسکیو 1122 کی ٹیمیں، پولیس کے جوان اور پاک فوج کے سپاہی اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر لوگوں کو بچاتے رہے، کئی سپاہی پانی میں اتر کر کمزور کشتیوں کو دھکیلتے رہے تاکہ کسی کی جان بچ سکے، ان مناظر نے عوام کو یہ باور کرایا کہ مشکل گھڑی میں ادارے عوام کے ساتھ ہیں لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم رہا کہ یہ سب کچھ پہلے سے روکنے کے لیے کیا کیا گیا تھا؟ کیوں ہر سال بارش اور دریا کے بہاؤ کو سیلاب کا نام دے کر صرف عارضی امداد پر اکتفا کر لیا جاتا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر جدید واٹر مینجمنٹ، ڈیمز اور بیراج بنائے جاتے، اگر دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو چھیڑا نہ جاتا، اگر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لالچ میں زمین کے استعمال کی پالیسیوں کو پامال نہ کیا جاتا تو آج اتنے بڑے پیمانے پر تباہی نہ ہوتی، مگر افسوس کہ ہماری ریاستی ترجیحات ہمیشہ عارضی اقدامات اور وقتی شہرت تک محدود رہتی ہیں، عوام کے دکھ درد سے زیادہ بڑے بڑے منصوبے اور سرمایہ داروں کے مفاد مقدم رکھے جاتے ہیں، اور پھر یہی ہوتا ہے کہ جب بارش بڑھتی ہے، دریا بپھرتا ہے تو زندگیاں ڈوب جاتی ہیں اور خواب بکھر جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج جب شاہدرہ سے مانگا منڈی تک بربادی کے مناظر پھیلے ہوئے ہیں تو ہر طرف یہ سوال گونج رہا ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہم یہ کہہ کر مطمئن ہو جائیں کہ یہ سب قدرت کا فیصلہ ہے یا ہمیں اپنی غفلت کا اعتراف بھی کرنا ہوگا؟ اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک کی مثال دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہالینڈ نے سمندر کے قریب رہ کر بھی فلڈ مینجمنٹ کے ایسے منصوبے بنائے جنہوں نے صدیوں تک ان کے شہروں کو محفوظ رکھا، چین نے دریاؤں کے بہاؤ کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کنٹرول کیا، بنگلہ دیش جیسا پسماندہ ملک بھی آفات سے نمٹنے کے لیے پالیسی سطح پر مؤثر اقدامات کر چکا ہے لیکن ہم اب بھی ہر سال کی بارش کو آفت کہہ کر عارضی امداد پر گزارہ کر لیتے ہیں، سوال یہ بھی ہے کہ کیا عوام کی جان و مال کی حفاظت صرف الخدمت، ریسکیو اور فوج کے جذبۂ قربانی پر چھوڑ دینی چاہیے یا ریاستی پالیسی اور حکمت عملی بھی کوئی معنی رکھتی ہے؟ جب تک زمین کے استعمال کی پالیسی پر سختی سے عمل نہیں ہوگا، جب تک دریاؤں کے کنارے ہاؤسنگ اسکیموں پر پابندی عائد نہیں ہوگی، جب تک بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کو توڑا نہیں جائے گا تب تک ہر سال یہی مناظر دہرائے جائیں گے، بچے یتیم ہوں گے، عورتیں بیوہ ہوں گی، کھیت اجڑیں گے، مویشی بہیں گے اور زندگیاں سسکتی رہیں گی، اس لیے آج وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ حکومت فوری طور پر راوی کے کنارے قائم غیر قانونی اور غیر محفوظ منصوبوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے، اداروں میں جوابدہی کا نظام قائم کرے، جدید ڈیمز اور بیراج تعمیر کرے، ماحولیاتی اصولوں کو پالیسی کا لازمی جزو بنائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس تباہی کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو عوام کی زندگیاں داؤ پر لگانے کی جرات نہ ہو، کیونکہ اگر آج بھی ہم نے سبق نہ سیکھا تو آنے والے برسوں میں یہی سسکتی، ڈوبتی اور لڑکھڑاتی زندگیاں مزید بڑھ جائیں گی اور پھر ہر طرف صرف ایک ہی سوال گونجے گا: ذمہ دار کون؟



