
سیلابی تباہ کاریاں اور حکومتی ریاکاریاں ۔۔۔۔۔۔!!
سیلابی تباہ کاریاں اور حکومتی ریاکاریاں ہمارے معاشرے کی وہ تلخ حقیقت ہیں جو ہر سال نئے زخم دے کر پرانے زخموں کو کریدتی ہیں، بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی حکمرانوں کے بلند و بانگ دعوے، ٹی وی چینلز پر پریس کانفرنسیں، بڑے بڑے اجلاس اور فوٹو سیشن شروع ہو جاتے ہیں، مگر عملی میدان میں عوام کو صرف محرومیاں اور تباہ حال زندگیاں نصیب ہوتی ہیں، پاکستان میں بارش اور سیلاب کوئی نیا یا اچانک آنے والا عذاب نہیں بلکہ یہ ہر برس کی کہانی ہے جسے روکنے کے لیے اربوں روپے کے منصوبے، فلڈ پروٹیکشن وال، نالوں کی صفائی، ڈیموں کی تعمیر اور ریلیف پالیسیوں کے دعوے ہر حکومت دہراتی ہے مگر افسوس کہ زمین پر حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے، دیہات کے دیہات ڈوب جاتے ہیں، کھڑی فصلیں ملیامیٹ ہو جاتی ہیں، لاکھوں افراد بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بچے بھوک اور بیماری سے بلک بلک کر جان دے دیتے ہیں، مائیں پانی اور خوراک کے لیے ترستی رہتی ہیں اور بوڑھے لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی پانی کے ریلوں میں بہا دیتے ہیں، حکومتیں اس وقت بھی تصویریں کھنچوانے اور بیانات جاری کرنے میں مصروف رہتی ہیں، وزراء دورے کرتے ہیں، ہیلی کاپٹر کے ذریعے آسمان سے سروے کرتے ہیں اور نیچے موجود عوام کو ہاتھ ہلا کر تسلی دیتے ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ خیمہ پہنچتا ہے نہ راشن، نہ دوائی ملتی ہے نہ صاف پانی، امدادی سامان کہیں گوداموں میں سڑتا رہتا ہے اور کہیں مخصوص ووٹ بینک یا سیاسی اثر رسوخ کے تحت بانٹا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سال کے بعد اگلا سال اور زیادہ تباہ کن ثابت ہوتا ہے کیونکہ عوام کے لیے تو کوئی پالیسی نہیں بنائی جاتی بلکہ پالیسی حکمرانوں کی جیبیں بھرنے کے لیے بنتی ہے، عالمی ادارے فنڈ دیتے ہیں، اربوں ڈالر کی امداد آتی ہے مگر وہی پیسہ کرپشن کی نذر ہو کر اشرافیہ کے بنگلوں، نئی گاڑیوں اور بیرون ملک اکاؤنٹس میں چلا جاتا ہے، متاثرین کے نام پر تصویریں تو خوب بنتی ہیں لیکن ان کی زندگیوں کو دوبارہ سنوارنے والا کوئی نہیں ہوتا، سیلابی پانی کم ہونے کے بعد بھی عوام کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں بلکہ بیماریوں کے نئے طوفان آ جاتے ہیں، ملیریا، ڈینگی، ہیضہ اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں پھیلتی ہیں اور ناقص علاج کی وجہ سے اموات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اسکول اجڑ جاتے ہیں، سڑکیں اور پل ٹوٹ جاتے ہیں مگر مرمت اور بحالی کے منصوبے صرف کاغذوں میں دکھائی دیتے ہیں، بڑے بڑے وعدے اور اعلانات کے باوجود زمین پر کچھ نہیں ہوتا، سیاستدان اپنی تقریروں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ فلاں حکومت نے کچھ نہیں کیا اور ہم کریں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ پچھلوں نے کچھ کیا اور نہ موجودہ کچھ کرے گی، یہ ریاکاری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب عوام کے دلوں سے حکمرانوں پر اعتماد بالکل ختم ہو گیا ہے، دیہاتی لوگ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں کی دیواریں مٹی سے بھر کر اور کچے گھروں کی چھتوں کو لکڑیوں اور پلاسٹک شیٹوں سے ڈھانپ کر اپنی بقا کی جنگ خود لڑتے ہیں، جبکہ حکومتیں صرف اپنے سیاسی کھیل کھیلنے میں مصروف رہتی ہیں، ہر سال انہی علاقوں میں وہی تباہی مچتی ہے، وہی پانی گھروں میں داخل ہوتا ہے، وہی کھیت ڈوبتے ہیں، وہی مویشی بہہ جاتے ہیں اور وہی لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں مگر کوئی پائیدار حل نظر نہیں آتا، میڈیا پر بڑی بڑی سرخیاں لگتی ہیں، تجزیہ نگار شور مچاتے ہیں، عوام احتجاج کرتے ہیں مگر جب پانی اتر جاتا ہے تو سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے اور اگلے برس پھر وہی قیامت ٹوٹتی ہے، سوال یہ ہے کہ آخر یہ ریاکاریاں کب تک جاری رہیں گی، کب تک عوام کے نام پر سیاست چمکائی جائے گی اور کب تک انسانی جانوں کا سودا کیا جاتا رہے گا، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران سنجیدگی سے سیلابی آفات کے تدارک کے لیے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کریں، ڈیم بنائیں، نکاسی آب کے نظام کو بہتر کریں، دریا کے کناروں پر حفاظتی بند تعمیر کریں اور سب سے بڑھ کر ایمانداری کے ساتھ فنڈز کو صحیح جگہ استعمال کریں، کیونکہ اگر اب بھی آنکھیں بند کر کے ریاکاری کی سیاست جاری رہی تو آنے والے برسوں میں سیلاب محض پانی کا ریلا نہیں لائے گا بلکہ یہ عوام کے صبر کے بندھن بھی توڑ دے گا اور پھر حکمرانوں کی عیاشیاں اور ریاکاریاں اسی سیلاب میں بہہ جائیں گی، مگر افسوس کہ یہ سچ سننے والا کوئی نہیں، عوام بے بس ہیں اور حکمران بے حس۔


