پولیٹیکل اینڈ کرنٹ افئیرز

تشدد زدہ سیاست اور نئی نسل کی فکری تشکیل۔۔۔۔۔!!

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان، آصف علی زرداری، اور میاں محمد نواز شریف کے کردار اہم اور دور رس نتائج کے حامل رہے ہیں۔ ان تینوں سیاستدانوں نے ملک کی سیاسی حرکیات کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ ایک نسل کے ذہنوں پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان، جو کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں، اپنی سیاست سے وابستگی اور ملکی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ تشدد، نفرت، اور عدم برداشت کی سیاست کا شکار ہو چکے ہیں۔عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کا ابھرنا ایک نئی سیاسی تحریک کا آغاز تھا، جو روایتی سیاستدانوں کے خلاف عوام میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف ان کا بیانیہ نوجوانوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہا۔ عمران خان نے ملک میں نئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا، اور ان کے دعووں میں تبدیلی، انصاف، اور کرپشن کا خاتمہ بنیادی نقاط تھے۔دوسری جانب، آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے رہنماؤں نے اپنی اپنی حکومتوں میں ایسے اقدامات کیے جن سے سیاسی استحکام کو نقصان پہنچا۔ زرداری، پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما، اپنے دور حکومت میں کرپشن کے الزامات کی زد میں رہے، جبکہ نواز شریف کے دورِ اقتدار میں عدلیہ اور فوج کے ساتھ تنازعات نے ملک میں بے یقینی کی فضا قائم کی۔ ان تینوں سیاستدانوں کے کردار اور بیانیے نہ صرف ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں بلکہ ان کے اختلافات نے عوام کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔پاکستان میں سیاست دانوں کے درمیان تنازعات اور اختلافات نے عوامی سطح پر تشدد اور عدم برداشت کی فضا کو جنم دیا۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے ان تنازعات کو مزید بڑھاوا دیا، اور اس کے نتیجے میں عوام کے درمیان نظریاتی اور فکری تقسیم گہری ہو گئی۔ نئی نسل، جو میڈیا کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی، ان بیانیوں کو بغیر تحقیق کے قبول کرنے لگی۔سیاست میں مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے الزام تراشی اور کردار کشی کی سیاست نے نئی نسل کو یہ سکھایا کہ اپنے نظریات کو پیش کرنے کے بجائے دوسروں پر حملے کرنا زیادہ مؤثر ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے حامی ہوں یا نواز شریف اور زرداری کے پیروکار، دونوں جانب کے نوجوان ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ یہ سیاسی تشدد صرف زبان تک محدود نہیں رہا بلکہ عملی زندگی میں بھی جھگڑوں اور تصادم کا سبب بنا ہے۔نئی نسل جو ابتدائی دنوں میں تبدیلی، انصاف، اور ترقی کے نعرے سن کر سیاست میں دلچسپی لے رہی تھی، آہستہ آہستہ مایوس ہو رہی ہے۔ عمران خان کے دعوے، پیپلز پارٹی کے طویل اقتدار، اور نواز شریف کی مسلم لیگ ن کی پالیسیوں نے نوجوانوں کے لیے امید کی کوئی نئی کرن نہیں چھوڑی۔ کرپشن، معیشتی بحران، اور بیروزگاری جیسے مسائل نے نئی نسل کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ملک میں واقعی کوئی مثبت تبدیلی ممکن ہے یا نہیں۔نوجوانوں کے ذہنوں پر سیاسی استحصال کے اثرات واضح ہیں۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں جہاں کامیابی کے حصول کے لیے اصولوں کی پاسداری نہیں بلکہ سیاسی جوڑ توڑ اور ذاتی مفاد کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کی ذاتی لڑائیاں اور مفادات نے نئی نسل کو سیاسی اقدار سے دور کر دیا ہے، اور وہ ان مسائل کے حل کے بجائے مزید الجھن میں مبتلا ہو چکے ہیں۔پاکستان میں سیاست کا فروغ اگرچہ جمہوریت کی علامت ہے، لیکن سیاست میں اخلاقیات اور اصولوں کی عدم موجودگی نئی نسل کو فکری بلوغت سے دور کر رہی ہے۔ ایک طرف تو انہیں سیاسی جدوجہد کی اہمیت کا شعور دیا جا رہا ہے، لیکن دوسری جانب انہیں یہ سکھایا جا رہا ہے کہ مقصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانا جائز ہے۔عمران خان، آصف علی زرداری، اور نواز شریف کے حامیوں میں شدید اختلافات اور مخاصمت اس بات کی غماز ہے کہ سیاست کو عوامی خدمت کے بجائے ذاتی مفادات کے فروغ کا ذریعہ بنایا جا چکا ہے۔ میڈیا، جو رائے عامہ تشکیل دینے میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے، اپنے پیشہ ورانہ اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ریٹنگز کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ اس سب کا اثر نئی نسل پر پڑ رہا ہے، اور وہ سیاسی گفتگو میں تہذیب و شائستگی کو کمزور ہوتا دیکھ رہی ہے۔پاکستان میں نظریاتی اور فکری تقسیم بھی بڑھ رہی ہے، اور یہ تقسیم سیاست کی صورت میں مزید گہری ہو رہی ہے۔ نئی نسل مختلف سیاسی جماعتوں کے بیانیوں میں الجھ کر اپنی فکری آزادی کھو رہی ہے۔ عمران خان کا "نیا پاکستان” کا نعرہ اور "کرپشن فری” سوسائٹی کا تصور نوجوانوں کے لیے پرکشش تھا، لیکن جب ان وعدوں کو عملی شکل نہ دی جا سکی تو نوجوانوں میں مایوسی پھیل گئی۔ اسی طرح، زرداری اور نواز شریف کے اقتدار کے دوران ہونے والی بے ضابطگیاں اور اسکینڈلز نے عوام میں نظام کے بارے میں بدگمانی پیدا کی۔نتیجہ یہ ہوا کہ نئی نسل سیاستدانوں کو نہ صرف شک کی نگاہ سے دیکھنے لگی بلکہ سیاست کو ایک ایسے کھیل کے طور پر سمجھنے لگی جس میں عوامی مفاد کی کوئی جگہ نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی آپس میں مسلسل جھڑپوں اور بیان بازی نے عوام کو ایک مسلسل عدم استحکام کی حالت میں رکھا ہے۔تشدد زدہ سیاست سے نکلنے کا راستہ آسان نہیں ہے، لیکن اگر نئی نسل کو ایک بہتر سیاسی ماحول دینا ہے تو ہمیں اپنی سیاست کو اخلاقی اور اصولی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو اختلافات کو ختم کر کے قومی مفاد کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ نئی نسل کو سکھانا ہوگا کہ سیاست میں اختلافات ہونا فطری ہیں، لیکن ان اختلافات کو تشدد اور نفرت کی بنیاد بنانا مناسب نہیں۔تعلیمی اداروں اور میڈیا کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ وہ نئی نسل کی فکری تربیت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں ایسی تعلیم اور میڈیا کا نظام تیار کرنا ہوگا جو نوجوانوں کو ایک وسیع النظر اور تحقیق پر مبنی رائے قائم کرنے کی ترغیب دے۔ انہیں یہ سکھانا ہوگا کہ اختلاف رائے کا مطلب دشمنی نہیں ہے اور سیاسی مکالمے میں شائستگی اور تہذیب کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button