پولیٹیکل اینڈ کرنٹ افئیرز

گھگڑ منڈی انڈر پاس ترقی یا تباہی شاخسانہ……!!

گھگڑ منڈی انڈر پاس پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔ عوام کو یقین دلایا گیا کہ یہ منصوبہ ان کے لیے سہولت لائے گا، ٹریفک کی روانی بہتر ہوگی اور علاقے کے لوگ جدید سہولتوں سے استفادہ کریں گے۔ لیکن افسوس کہ افتتاح سے قبل ہی یہ منصوبہ سوالیہ نشان بن گیا۔ انڈر پاس کے ڈیزائن میں ایسی بنیادی خامیاں سامنے آئی ہیں جو عوام کے لیے سہولت کے بجائے مصیبت کا باعث بن سکتی ہیں۔ راستہ تنگ ہے اور ڈھلوان اتنی تیز ہے کہ کسی بھی وقت حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ یہ منصوبہ اس حقیقت کی ایک اور جھلک ہے کہ ہمارے ہاں ترقیاتی کام اکثر جلدبازی، ناقص نگرانی اور سیاسی نمائش کے زیرِ اثر مکمل کیے جاتے ہیں، عوامی ضرورت اور سلامتی کو پسِ پشت ڈال کر۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ گھگڑ منڈی کے کسی منصوبے پر سوال اٹھے ہوں۔ اس سے قبل آہنی پل کے اسکینڈل نے بھی سب کچھ بے نقاب کر دیا تھا۔ وہاں بھی وہی کہانی دہرائی گئی: بڑی بڑی دعوے، کروڑوں روپے کا خرچ اور پھر چند ہی دنوں میں نقائص کا سامنے آ جانا۔ افسوس کہ وہی تاریخ اب انڈر پاس کے ساتھ بھی دہرا دی گئی ہے۔ عوامی پیسہ بے دریغ استعمال کیا گیا لیکن نتیجہ سہولت کے بجائے خوف ہے، فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ جب کسی منصوبے کی ڈیزائننگ کی جاتی ہے تو اس میں ٹریفک کا حجم، مستقبل کی ضروریات، حفاظت کے تقاضے اور عوام کی سہولت کو کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے؟ انجینئرنگ کے ایسے بنیادی اصول جنہیں دنیا بھر میں لازمی سمجھا جاتا ہے، وہ یہاں محض کاغذوں میں پورے کر کے اصل کام میں نظرانداز کیوں کر دیے جاتے ہیں؟ کیا یہ سب محض نااہلی ہے یا اس کے پیچھے کرپشن کی وہی پرانی کہانی ہے جس کا ذکر بار بار ان منصوبوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے؟
انڈر پاس کے حوالے سے عوام میں پہلے ہی خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔ بارش ہو یا دھند، ایسے ڈیزائن میں ذرا سی بے احتیاطی بڑے سانحے کو جنم دے سکتی ہے۔ عوام کے ٹیکس سے بننے والے منصوبے عوام کی جان کے لیے خطرہ بن جائیں تو یہ صرف بدانتظامی نہیں بلکہ جرم ہے۔ منصوبہ بنانے والوں سے لے کر اس پر دستخط کرنے والوں تک، سب کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس منصوبے کا شفاف اور غیر جانبدارانہ آڈٹ کیا جائے۔ انجینئرنگ کے ماہرین سے ڈیزائن کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے اور جو بھی خامیاں ہیں ان کی فوری اصلاح کی جائے۔ اگر یہ انڈر پاس اسی حالت میں عوام کے حوالے کر دیا گیا تو یہ کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ منصوبہ مکمل کرنے والے ادارے اور ذمہ دار افسران سے بھی سوال ہونا چاہیے کہ آخر کروڑوں روپے کے خرچ کے باوجود یہ بنیادی نقائص کیوں موجود ہیں۔ عوام کو جاننے کا حق ہے کہ ان کے پیسے سے کھیلنے والے کون ہیں۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ترقی محض تختی لگانے یا افتتاحی تقریبات کا نام نہیں، اصل ترقی وہ ہے جس سے عوام کو سہولت ملے اور ان کی زندگیاں محفوظ ہوں۔ گھگڑ منڈی انڈر پاس کا مسئلہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب تک احتساب اور شفافیت کو یقینی نہیں بنایا جائے گا، جب تک عوامی منصوبوں میں معیار کو اولین شرط نہیں بنایا جائے گا، تب تک اربوں روپے بھی خرچ کر دیے جائیں تو نتیجہ وہی نکلے گا: عوام کے اعتماد کا زیاں، ان کے پیسے کا ضیاع اور ان کی جانوں کو لاحق مستقل خطرہ۔

یہ وقت کسی اور افتتاحی تقریب کا نہیں، بلکہ سخت سوال پوچھنے، جواب لینے اور اصلاح کے عمل کو فوراً شروع کرنے کا ہے۔ عوام کی جانوں سے کھیلنے والے منصوبے ترقی نہیں، تباہی ہیں — اور اگر انہیں اسی طرح جاری رکھا گیا تو یہ صرف حادثات کا سبب نہیں بنیں گے بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کے پل کو بھی ہمیشہ کے لیے توڑ ڈالیں گے۔(تحریر۔۔ ملک خلیل الرحمن )

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button