
ہر لمحہ عشق کا پیامبر۔۔۔۔۔!!
داخلی سفر، جو انسان کی ذات کے پردوں میں گم ہو کر اپنی اصل حقیقت اور ربِّ حقیقی کی معرفت پانے کا سفر ہے، تب شروع ہوتا ہے جب انسان کو یہ سچائی پوری شدت سے سمجھ آ جاتی ہے کہ دنیا کی ساری ظاہری چمک دمک، دولت و شہرت، تعلقات و رتبہ، عارضی خوشیاں اور جسمانی لذتیں اسے سچا اور دائمی سکون نہیں دے سکتیں، کیونکہ باہر کی ہر چیز فنا ہونے والی، بدلنے والی اور اپنی جگہ بےقرار ہے، اور جو بھی کسی غیرحقیقی سہارے پر اپنی خوشی اور اطمینان کا دارومدار رکھتا ہے، اسے ایک نہ ایک دن مایوسی اور ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے، یہی وہ مقامِ ادراک ہے جہاں انسان اپنی تلاش کا رخ دنیا سے موڑ کر اپنی اندرونی دنیا کی طرف کرتا ہے، جہاں ایک خاموش، نہ نظر آنے والی، لیکن مسلسل پکارتی ہوئی حقیقت بستی ہے جو قلبِ سلیم میں اتر کر انسان کو اپنی اور اپنے خالق کی معرفت عطا کرتی ہے؛ یہی اندرونی راستہ، صراطِ مستقیم، یہی راہِ سلوک و سیر الی اللہ ہے جس پر جب انسان پہلا قدم رکھتا ہے تو سب سے پہلے اپنی انا، اپنی خواہشات اور اپنے ظاہری وجود کی پرتوں کو چاک کرتا چلا جاتا ہے، یہاں انسان کو معلوم ہونے لگتا ہے کہ جو بدن نظر آتا ہے، وہ اس کی حقیقت نہیں، جو ذہن سوچتا ہے، وہ بھی اس کے جوہر سے الگ ہے، اور جو دل دنیاوی رغبتوں سے مائل رہتا ہے، اس کی گہرائی میں ایک نکتۂ نورانی چھپا ہے جس کی آواز سنتے ہی قلب میں ایک نئی بیداری پیدا ہوتی ہے، تب وہ دیکھی اور سنی دنیا سے نظر ہٹا کر اس باطنی دنیا کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جو ہر سمت سے اس کو اپنی طرف بلاتی ہے، یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب روحانی جستجو بیدار ہوتی ہے اور انسان سچے راہیوں، اہلِ دل اور صوفیائے کرام کی صحبت ڈھونڈنے لگتا ہے تاکہ اپنی اس غیر مرئی پیاس کو بجھا سکے، پھر اس سفر میں جو سبق ملتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ قلبِ مضطرب کو دنیا کی کسی شے سے تسکین نہیں مل سکتی سوائے اس کے کہ وہ اپنی خالقِ حقیقی کے قرب و وصال کا طلبگار ہو جائے، یہ وہ عشق و مستی کا راستہ ہے جس پر چل کر دنیا داری کی الجھنیں، سماج کے رسم و رواج اور دنیاوی پیمانے سب دھندلے ہو جاتے ہیں، اور انسان اپنی اصل امانت، اپنی روح کو پاک صاف کرنے کے لیے مخلوق سے دامن سمیٹ کر خالق کی طرف پلٹتا ہے، صوفیہ کی تعلیم یہی رہی ہے کہ جب قلب میں یہ یقین پختہ ہو جائے کہ مخلوق سے توقع باندھنا عبث ہے اور مادی اشیاء کا سہارا ناپائیدار، تب بندہ دل کو آئینہ بنانے میں مصروف ہو جاتا ہے تاکہ اس میں اللہ کے جمال کا عکس دیکھ سکے، پھر اسے خاموش مراقبوں میں، سجدوں میں، خلوتوں میں اور ذکر و فکر میں ایسی لذت محسوس ہوتی ہے جو دنیا بھر کی لذتوں پر غالب آ جاتی ہے، اس راہ پر چلنے والا دھیرے دھیرے نفس کے تقاضوں کو مغلوب کرتا، اپنی کمزوریوں کا سامنا کرتا اور اپنی ذات کو رب کے سپرد کرتا چلا جاتا ہے، اور پھر وہ دن آتا ہے جب قلبِ منور میں بیداری کا وہ سورج طلوع ہوتا ہے جو تاریکیوں کو اپنی روشنی میں فنا کر دیتا ہے، پھر دنیا ویسی نظر نہیں آتی جیسی پہلے نظر آتی تھی، ہر چیز میں خالق کا جلوہ نظر آتا ہے، ہر منظر اس کے اسماء کا پرتَو بن جاتا ہے، اور سالک اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں اپنی ہستی کو فنا کر کے وہ اپنے ربّ کی بقا میں گم ہو جاتا ہے، یہی فنائے فی اللہ و بقائے باللہ کی منزل ہے، جس پر پہنچنے والے کو نہ دنیا کی پریشانی ستا سکتی ہے اور نہ موت کا خوف اس کے دل میں جگہ پا سکتا ہے، کیونکہ اس نے اپنی ساری تمنائیں، اپنی ساری امیدیں اور اپنی ساری نیازیں اس کے حوالے کر دی ہوتی ہیں جو دائمی اور سرمدی ہے، اس مقام پر پہنچ کر انسان دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کا نہیں رہتا، اس کا قلب مطمئن اور روح آزاد ہو چکی ہوتی ہے، اور پھر وہ اس خاموش پکار کا امین بن جاتا ہے جو ہر بھٹکے ہوئے راہی کو اپنی جانب بلاتی ہے، یہی داخلی سفر کی حقیقت اور اس کا ثمرہ ہے جو تب شروع ہوتا ہے جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ باہر کی کوئی چیز اسے سکون نہیں دے سکتی اور اس راز کو پا لینے کے بعد وہ اپنے وجود کے اندر کے سمندر میں اترنے لگتا ہے، جہاں موتی اپنی اصل چمک میں اس کا منتظر ہوتے ہیں، یوں ایک سچے طالب کے لیے یہ دنیوی زندگی فقط معرفت کا مدرسہ بن جاتی ہے، اور اس کی ہر سانس خالق سے ملاقات کا ایک قدم، اس کا ہر لمحہ عشق کا پیامبر اور اس کا ہر قدم قربِ الٰہی کی منازل کا سنگ میل بن جاتا ہے، پھر بندے اور رب کے درمیان نہ کوئی پردہ رہتا ہے نہ فاصلہ، بس وصال اور رضا کا ایک سدا بہار موسم ہوتا ہے جس میں روح مست ہو کر اپنی منزل سے ہمکنار ہو جاتی ہے، اور یہی وہ حقیقت ہے جو انسانی زندگی کو اس کے اعلیٰ ترین مقصد سے ہمکنار کرتی ہے اور قلب کو سچی مسرت اور ابدی سکون سے ہمکنار کر دیتی ہے۔


