
صحافت کے فرعون اور نوواردوں کا استحصال۔۔۔۔!!!
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے، جس کا بنیادی فریضہ سچ کو سامنے لانا اور مظلوم کی آواز بننا ہوتا ہے، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ آج یہی شعبہ اندر سے ظلم، استحصال اور فرعونیت کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ علاقائی سطح پر بعض نامور میڈیا ہاؤسز کے نمائندے خود کو کسی سلطان سے کم نہیں سمجھتے۔ یہ نمائندے جنہیں اداروں نے عوامی آواز بننے کا اختیار دیا، انہوں نے خود کو اس طاقت کا دیوتا تصور کر لیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف عوام کے مسائل سے آنکھیں پھیر لی ہیں بلکہ صحافت میں قدم رکھنے والے نئے اور پرجوش طالبعلموں کے لیے زمین تنگ کر دی ہے۔ ہر نئے آنے والے صحافی کو حقارت بھری نظروں سے دیکھنا، انہیں سیکھنے سے روکنا، ان کی خبروں کو دبا دینا، ادارے تک ان کی رسائی کے دروازے بند کر دینا، یہاں تک کہ مقامی سطح پر ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا معمول بن چکا ہے۔ یہ رویے نہ صرف صحافت کے اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں تلخی، بے اعتمادی اور مایوسی کو جنم دیتے ہیں۔ان علاقائی فرعونوں کا مسئلہ یہ نہیں کہ نئے لوگ نااہل ہیں، بلکہ اصل درد یہ ہے کہ کہیں یہ نئے چہرے ان کی جگہ نہ لے لیں۔ چنانچہ وہ اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے اخباری خبروں کی مارکیٹ کو "قبضہ گروپ” کی طرح چلاتے ہیں۔ یہ نمائندے رپورٹر کم اور بلیک میلر زیادہ بن چکے ہیں، جو اپنی طاقت کا استعمال ادارتی کمزوریوں، سفارشوں اور پرانے تعلقات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اس ماحول میں سچ کی تلاش کرنے والے نئے طالبعلم صحافی جب خود کو گھٹن میں پاتے ہیں تو یا تو وہ صحافت چھوڑ دیتے ہیں یا پھر مجبور ہو کر انہی فرعونی اصولوں کا حصہ بن جاتے ہیں، یوں ایک شیطانی چکر کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا ہاؤسز اپنے نمائندوں کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیں اور علاقائی نمائندوں کے رویوں کو سنجیدگی سے دیکھیں۔ نئے آنے والوں کے لیے رہنمائی، ٹریننگ اور معاونت کے دروازے کھولے جائیں۔ صحافت کے طالبعلموں کے لیے ایک علیحدہ سپورٹ سسٹم اور شکایتی فورم بنایا جائے، جہاں وہ اس طرح کے استحصال کی شکایت درج کر سکیں۔ اگر ہم صحافت کو واقعی ایک باوقار اور انقلابی پیشہ سمجھتے ہیں تو ہمیں اس کے اندر کے فرعونوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ بصورتِ دیگر یہ شعبہ وہی کہانی بنتا چلا جائے گا جس میں طاقتور ہی صحافت کرے گا، اور سچ، سچ کی تلاش میں مارا جائے گا۔


