
اسرائیل خوف زدہ قلعہ ………..!!
"چھ لاکھ صیہونیوں کا فرار — اسرائیل اب محفوظ پناہ گاہ نہیں، ایک خوف زدہ قلعہ ہے”
جب بھی کسی ریاست کی بنیاد تشدد، قبضے، اور جبر پر رکھی جائے تو وہ ریاست چاہے عارضی طور پر طاقتور دکھائی دے، مگر اس کی بنیادیں کمزور ہی ہوتی ہیں۔ اسرائیل — وہ ریاست جسے "یہودیوں کے لیے محفوظ وطن” کے نام پر فلسطینی سرزمین پر قائم کیا گیا — آج اپنے قیام کے تقریباً 75 برس بعد زوال کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اور اس زوال کا سب سے اہم اشاریہ وہ ہجرت ہے جو خاموشی سے، مگر شدت سے، اسرائیلیوں کے ہاتھوں خود اپنے ہی ملک سے ہو رہی ہے۔
7 اکتوبر کے بعد کا اسرائیل — خوف کی سلطنت:
7 اکتوبر 2023 کو جب غزہ میں حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غیرمعمولی جوابی کارروائی ہوئی، تو دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی۔ اس کارروائی کے بعد اسرائیل نے جو ردعمل دکھایا وہ بدترین بمباری، ہسپتالوں کی تباہی، اور معصوم بچوں کی اجتماعی قبریں بن کر سامنے آیا۔ مگر اس کے ساتھ ایک اور خاموش مگر نہایت گہرا زلزلہ اسرائیل کے اندر رونما ہوا: "فرار”۔
غیر سرکاری اندازوں کے مطابق، صرف چند مہینوں کے اندر اندر چھ لاکھ سے زائد اسرائیلی شہری اسرائیل چھوڑ چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 82,000 افراد نے مستقل بنیادوں پر دیگر ممالک میں قیام کی کوشش کی ہے۔ یہ اعداد و شمار محض ہجرت کی داستان نہیں سناتے، بلکہ وہ نظریاتی دراڑیں دکھاتے ہیں جو اسرائیل کی بنیاد رکھنے والے صیہونی فلسفے میں پیدا ہو چکی ہیں۔
صیہونیت: ایک نظریہ، ایک فریب؟
صیہونیت کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک مشترکہ، محفوظ، خودمختار ریاست فراہم کرے گا — ایک ایسی سرزمین جو ان کی مذہبی، ثقافتی اور نسلی شناخت کی محافظ بنے گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صیہونیت نے ایک مظلوم قوم کو کسی دوسری مظلوم قوم کے سینے پر حکمران بنا دیا۔ یہودیوں کو جو "وطن” دیا گیا، وہ کسی ویران صحرا یا خالی میدان میں نہیں تھا، بلکہ وہ فلسطینیوں کے جیتے جاگتے گھروں، بستیوں، بازاروں اور خوابوں پر مسلط کیا گیا۔ صیہونیت نے سیکیورٹی کا وعدہ کیا مگر مسلسل عدم تحفظ فراہم کیا۔ اس نے پناہ کی بات کی مگر جنگ، تنہائی اور جارحیت کو جنم دیا۔
نوجوان اسرائیلیوں کی بیداری
حالیہ اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر وہ لوگ جو اسرائیل چھوڑ رہے ہیں، وہ نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں — وہ نسل جو یا تو پیدائشی دوہری شہریت رکھتی ہے یا جس نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا فرار محض راکٹ حملوں سے خوفزدہ ہو کر نہیں بلکہ اس احساس سے ہے کہ وہ ایک ایسے نظریے کے غلام بنائے جا رہے ہیں جس میں ان کی خودمختاری، ضمیر، اور انسانیت کا کوئی مقام نہیں بچا۔ یورپ اور امریکہ کے قونصل خانوں میں "ری اسٹورڈ سیٹیزن شپ” کی درخواستوں میں بے پناہ اضافہ اس بیداری کا مظہر ہے۔ وہ نسل جو "صیہونیت” کے تابناک نعروں کے ساتھ پَلی بڑھی تھی، اب انہی نعروں کو انسانی المیے کا باعث سمجھنے لگی ہے۔
فلسطین کا نوحہ — انسانیت کا زخم:
اسرائیل سے فرار صرف اسرائیلیوں کی ہجرت نہیں بلکہ فلسطینیوں کی مسلسل جبری نقل مکانی کا بھی عکس ہے۔ 1948 سے اب تک لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے بے دخل کیے جا چکے ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر وہ آج بھی اپنی سرزمین سے وابستہ ہیں — غزہ میں بھوک، بمباری، قید و بند، بیماری، اور عالمی بے حسی کے باوجود۔ جبکہ اس کے برعکس، دنیا بھر سے بلائے گئے صیہونی، جو ایک پرتعیش زندگی گزار کر آئے تھے، آج ایک ناپسندیدہ سچائی سے منہ موڑ کر واپس جا رہے ہیں۔
مسلم اُمّہ کی ذمہ داری — وقت کا تقاضا:
آج جب اسرائیل کے اندرونی بحران نمایاں ہو چکے ہیں، تو یہ وقت مسلم دنیا کے لیے غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں محض بیانات یا قراردادیں کافی نہیں۔ مسلم اُمّہ کو ایک فعال، منظم، اور دیرپا پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
1. سفارتی محاذ پر اتحاد: عرب لیگ، او آئی سی، اور دیگر پلیٹ فارمز کو صرف اجلاسوں کی حد سے نکال کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے، اور اسرائیلی مظالم کو بین الاقوامی عدالت میں لے جانے کے لیے مشترکہ آواز بلند کرنا ہو گی۔
2. میڈیا اور بیانیہ کی جنگ: اسرائیلی بیانیہ ہمیشہ سے مغربی میڈیا کے زور پر غالب رہا ہے۔ مسلم ممالک کو اپنے ذرائع ابلاغ کو بااختیار بنا کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
3. معاشی بائیکاٹ کی مہم: اسرائیل کی معیشت بہت حد تک مغربی مصنوعات، اور عالمی سرمایہ کاری پر انحصار کرتی ہے۔ مسلم دنیا مل کر اسرائیل کے حامی اداروں، برانڈز اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی مربوط مہم چلا سکتی ہے۔
4. فلسطینی مزاحمت کی اخلاقی و سیاسی حمایت: غزہ اور مغربی کنارے میں جاری جدوجہد کو محض "دہشت گردی” کہہ کر مسترد کرنا اب قابل قبول نہیں۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حقِ خود ارادیت کی جدوجہد ہے، اور مسلم اُمّہ کو اس کا کھل کر دفاع کرنا چاہیے۔
پاکستان — ایک اصولی مؤقف کا وارث
پاکستان ہمیشہ سے فلسطین کے حق میں واضح مؤقف رکھتا آیا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا اور آج بھی پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ مگر صرف عدم تسلیم کافی نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ: اقوام متحدہ اور عالمی اداروں میں فلسطینی ریاست کی حمایت میں مزید فعال کردار ادا کرے۔
ایران، ترکی، ملائشیا اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے۔ اپنی سفارتی زبان میں توازن رکھتے ہوئے اسرائیل کے مظالم کو کھل کر بے نقاب کرے۔ نوجوان نسل کو فلسطین کے حوالے سے تاریخ، پس منظر اور جاری مزاحمت سے آگاہ کرے۔
صیہونیت کا مستقبل — ایک سوالیہ نشان
آج کا اسرائیل اپنے قیام کے سب سے بڑے دعوے — "محفوظ وطن” — میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اسرائیل اب ایک فوجی قلعہ ہے، ایک خوفزدہ قوم کا احاطہ ہے، جہاں دیواریں اونچی کی جا رہی ہیں مگر سلامتی ناپید ہے۔ جہاں ایئر ڈیفنس سسٹم ہے مگر اندرونی اعتماد نہیں۔ جب کسی ریاست کا وجود ہی خوف سے وابستہ ہو جائے تو وہ کتنا عرصہ قائم رہ سکتی ہے؟ اگر آج کے اسرائیلی شہری اپنے بچوں کو اُس ریاست میں محفوظ نہیں سمجھتے، تو کیا یہ خود صیہونیت کی شکست نہیں؟
تاریخ کا دھارا بدل رہا ہے۔
اسرائیل سے جاری فرار اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے شعور کی لہر اُبھر رہی ہے۔ طاقت کا توازن، بیانیے کی جنگ، اور اخلاقی جواز — سب کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ اور یہ مسلم اُمّہ کے لیے ایک موقع ہے، ایک کسوٹی ہے، ایک آزمائش ہے — کہ وہ ظلم کے اس باب کو صرف تاریخ کا حصہ بننے دے یا اس کی مزاحمت کو اپنی وحدت کی بنیاد بنا کر ایک نئی دنیا کی تعمیر کرے۔ یہ وقت خاموشی کا نہیں، بیداری کا ہے۔ کیونکہ جو قومیں اپنے وقت کو نہیں پہچانتیں، وقت اُنہیں مٹا دیتا ہے۔


