
"عاصم عاصی ” ن لیگی نظریاتی سیاست کا زندہ استعارہ ۔۔۔۔۔!!
عاصم عاصی ایک ایسا نام ہے جو صرف حلقہ PP-165 میں لیگی کارکن کے طور پر نہیں جانا جاتا بلکہ عوام کے دلوں میں خدمات، وفاداری، اور عملی جدوجہد کی ایک زندہ علامت کے طور پر رچا بسا ہوا ہے، وہ ایک ایسے سیاسی کارکن ہیں جنہوں نے محض پارٹی بینر تلے تصویر لگوانے یا پروٹوکول لینے کے بجائے میدانِ عمل کو اپنی سیاست کا مرکز بنایا، کوآرڈینیٹر لیسکو کی حیثیت سے عاصم عاصی نے بہترین خدمات سرانجام دیں ، بجلی کے بحران سے پریشان عوام ہوں یا ٹرانسفارمر جلنے کی شکایت ہو، اوور لوڈنگ سے تنگ صارفین ہوں یا علاقے میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا شور — ہر موقع پر عاصم عاصی عوام کے درمیان نہ صرف موجود نظر آئے بلکہ ہر مسئلے کے حل کے لیے لیسکو افسران سے لیکر میدانی عملے تک کے ساتھ بھرپور رابطہ رکھ کر، ہر درخواست کو ذاتی فرض سمجھ کر آگے بڑھایا، ان کی پہچان کسی دفتر میں بیٹھ کر عوام کے لیے بیان جاری کرنے کی نہیں بلکہ موقع پر پہنچ کر مسئلہ حل کرنے کی رہی، وہ ان کارکنوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی سفر کو نظریاتی، خدمت گزار، اور عوام دوست روایت کے طور پر تشکیل دیا، جہاں حلقے کی گلی ہو یا محلہ، مسجد کی روشنی کا مسئلہ ہو یا اسکول میں تاریک کلاس روم، عاصم عاصی کی موجودگی ایک گارنٹی سمجھی گئی کہ اب یہ کام رکنے والا نہیں، بلکہ مکمل ہو کر ہی دم لے گا، ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ہر فرد کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے ہیں، چاہے وہ لیگی ہو یا سیاسی مخالف، ان کی ترجیح علاقہ ہے، انسان ہے، اور خدمت ہے، یہی وجہ ہے کہ PP-165 میں جب بجلی کی مرمت، ٹرانسفارمر کی تبدیلی، یا اووربلنگ جیسے مسائل سر اٹھاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں "عاصم عاصی کو فون کرو، وہ خود دیکھ لیں گے”، اور وہ آتے ہیں، دیکھتے ہیں، حل کرواتے ہیں، اور اگلے دن پھر کسی نئے مسئلے کے تعاقب میں نکل پڑتے ہیں، یہی عوامی خدمت کا وہ تسلسل ہے جس نے انہیں صرف لیگی کیمپ کا کارکن نہیں بلکہ حلقے کا نمائندہ بنایا، خاص طور پر جب ن لیگ کی قیادت لاہور میں اپنا تنظیمی نیٹ ورک مضبوط کر رہی تھی تو عاصم عاصی نے پارٹی کے بنیادی ورکرز کو متحرک رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا، وہ نہ صرف پارٹی اجلاسوں میں متحرک رہے بلکہ الیکشن مہمات میں بھی لیڈر سے بڑھ کر کارکُن بن کر رات دن ایک کیا، ان کی یہ جدوجہد صرف بجلی یا پارٹی معاملات تک محدود نہیں بلکہ علاقائی مسائل جیسے نکاسی آب، سیوریج کی بندش، گلیوں کی صفائی، مین ہولز کے ڈھکن، اسٹریٹ لائٹس کی مرمت، اور یہاں تک کہ علاقے میں سکولوں کے اساتذہ کی کمی جیسے معاملات پر بھی آواز بلند کرنا ان کے طرزِ سیاست کا حصہ رہا ہے، انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ محض سیاسی بیانات یا جلسے جلوسوں سے عوام کا اعتماد حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ان کے بنیادی مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل نہ کیا جائے، وہ عام لوگوں سے اسی انداز میں ملتے ہیں جیسے ایک خاندان کا بڑا کسی چھوٹے کی بات سن رہا ہو، ان کا رویہ کبھی تاثر زدہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ کسی کام کو ذاتی مفاد یا پارٹی ووٹ کے تناظر میں کرتے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ "میں جس جگہ اللہ نے موقع دیا ہے، وہاں میں ہر شہری کے لیے ذمہ دار ہوں، چاہے وہ ووٹر ہو یا نہ ہو”، ان کے اسی رویے کی وجہ سے انہیں پارٹی کے اندر بھی ایک مخلص، سرگرم اور قابل بھروسہ کارکن کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیگی قیادت کے ساتھ ان کی قربت ان کی خدمات کی آئینہ دار ہے، وہ اپنی ذات کو کسی منصب کا محتاج نہیں سمجھتے، بلکہ ان کا مقصد ہی یہ ہے کہ جب تک وقت ہے، تب تک کام کیا جائے، چاہے ستائش ہو یا نہ ہو، یہی خلوص اُن کی کامیابی کی بنیاد ہے، آج جب حلقے کے اندر کسی کام کے ہونے کا تذکرہ ہوتا ہے تو لوگ عاصم عاصی کو ضرور یاد کرتے ہیں، وہ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے خدمت کو ذریعۂ سیاست بنایا، اور سیاست کو ذریعۂ اقتدار نہیں، یہی فرق انہیں باقیوں سے ممتاز کرتا ہے، ان کی شبانہ روز محنت، بروقت رسپانس، عام شہری کے مسئلے کو ایمرجنسی سمجھنا، اور سب سے بڑھ کر مسئلے کے حل تک سکون نہ لینا — یہ وہ صفات ہیں جو انہیں PP-165 کا حقیقی خادم بناتی ہیں، ان کا انداز کسی روایتی سیاسی کارکن جیسا نہیں بلکہ ایک فلاحی رہنما جیسا ہے، وہ حکام بالا سے الجھنا جانتے ہیں، لیکن عوام کے سامنے جھکنا بھی سیکھا ہوا ہے، انہیں واپڈا کے نظام کی باریکیوں کا بھی ادراک ہے اور سیاست کے مزاج کا بھی، یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ پارٹی تنظیم میں بھی ان کی موجودگی ایک اثاثہ سمجھی جاتی ہے، وقت آ گیا ہے کہ ایسے کارکنوں کو صرف کارکن نہ کہا جائے بلکہ انہیں جماعت کا نمائندہ چہرہ بنایا جائے، کیونکہ جو فرد رات گئے تک کسی کے گھر کی بجلی بحال کرا کر واپسی پر اپنے بچوں کو سوتے دیکھ کر شکر ادا کرتا ہے، وہ اس قوم کے مستقبل کی اصل امید ہے، عاصم عاصی جیسے کارکنان ہی پارٹیوں کے اصل اثاثے ہوتے ہیں، جو نہ صرف ووٹ دلواتے ہیں بلکہ نظریہ زندہ رکھتے ہیں، اور اگر پارٹیوں نے ایسے افراد کی قدر کی، تو عوامی سیاست ایک بار پھر عزت اور خدمت کے راستے پر لوٹ سکتی ہے۔



