پولیٹیکل اینڈ کرنٹ افئیرز

"سبز سوچ کا سفیر/فطرت کا فرزند: محمد منشا ساجد "

ماحولیاتی تحفظ کے موضوع پر جب عالمی ادارے، حکومتیں اور شہری حلقے طویل مباحث، قراردادیں اور تجویزات کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں، وہیں چونیاں کی مٹی سے جنم لینے والا ایک دردمند دل، ایک زندہ ضمیر اور فکری بیداری سے معمور انسان محمد منشا ساجد نہایت خاموشی، سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ کی ایک نئی جہت پر کام میں مصروف ہے، جہاں نہ اشتہارات کی گھن گرج ہے، نہ میڈیا کی چکاچوند اور نہ ہی تصویروں اور تعریفی اسناد کا شور، بلکہ یہ ایک ایسا عملی اور فکری جہاد ہے جو انسان، قدرت، فطرت اور رب کے درمیان قائم اس مقدس رشتے کو دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش ہے جو ترقی، صنعت، تعیشات اور سرمائے کی دوڑ میں کہیں دب چکا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ درخت صرف آکسیجن کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک روحانی وجود رکھتے ہیں، کہ ندیوں کا بہاؤ صرف زمین کو سیراب نہیں کرتا بلکہ انسانی روح کی تطہیر کرتا ہے، کہ زمین صرف ایک زرعی وسیلہ نہیں بلکہ ایک امانت ہے جو ہمیں مستقبل کی نسلوں کے لیے محفوظ، زرخیز اور پرامن حالت میں منتقل کرنی ہے، لہٰذا منشا ساجد کی جدوجہد نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کے خلاف ہے بلکہ انسانی لاپروائی، نظامی غفلت، تعلیمی تغافل اور روحانی زوال کے خلاف بھی ایک خاموش احتجاج ہے، وہ چونیاں اور اس کے گرد و نواح میں شجرکاری کی ایک ایسی تحریک برپا کر چکا ہے جس میں درخت لگانا صرف ایک عمل نہیں بلکہ ایک عبادت ہے، وہ مقامی مدارس، اسکولوں، مساجد، امام بارگاہوں اور کمیونٹی مراکز میں نوجوانوں کو اس شعور سے روشناس کرا رہا ہے کہ ماحولیاتی بگاڑ صرف جنگلات کی کٹائی سے نہیں بلکہ انسانی طرزِ زندگی، انا پرستی اور وقتی مفادات کی اندھی تقلید سے بھی پیدا ہوتا ہے، وہ زمین سے پیدا ہونے والے ہر دانے کو اللہ کی نعمت اور ہر پھول کو قدرت کا پیغام سمجھتا ہے، اس کی سوچ میں صنعتی ترقی اور فطری توازن کو ساتھ لے کر چلنے کا شعور موجود ہے، وہ حکومتی اداروں، مقامی بلدیہ، زمینداروں اور کسانوں کو بار بار اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ زمین ہماری غلام نہیں بلکہ ہم اس کے رکھوالے ہیں، کہ پانی صرف ٹیوب ویل سے نکالی جانے والی دولت نہیں بلکہ حیات کا راز ہے، کہ درخت صرف سایہ اور پھل کا ذریعہ نہیں بلکہ نسلِ انسانی کے بقا کی علامت ہیں، منشا ساجد نے اپنی ذاتی زمین پر نہ صرف ہزاروں پودے لگائے بلکہ نرسریاں قائم کر کے ان کی مفت تقسیم کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے، وہ ہر پودے کو بچوں کی طرح پالنے کا قائل ہے، ہر بیج کو مقدس جانتا ہے، اور ہر سبزے کو امید کی نئی کرن سمجھتا ہے، اس کا ایمان ہے کہ جب تک انسان فطرت کے ساتھ اپنے تعلق کو نہیں سمجھے گا، اس وقت تک ماحولیاتی تباہی محض ایک اعداد و شمار کی جنگ رہے گی، اس نے مقامی سطح پر بائیو گیس، کمپوسٹ کھاد، بارش کے پانی کو محفوظ بنانے اور زہریلی پلاسٹک کے خاتمے جیسے انقلابی خیالات کو نہ صرف عام کیا بلکہ کئی عملی اقدامات بھی کیے، وہ بچوں کو صرف کتابوں کے ذریعے نہیں بلکہ باغیچوں، کھیتوں اور درختوں کے سائے میں تربیت دیتا ہے، اس کا ماننا ہے کہ ایک درخت کے سائے میں بیٹھنے سے بہتر تربیت کوئی کلاس روم نہیں دے سکتا، اس کی زبان میں وہ تاثیر ہے جو روح کو جھنجھوڑ دیتی ہے، وہ نئی نسل کو اس نظریاتی بیداری کے ساتھ اٹھانا چاہتا ہے جو ماحول سے جڑے ہر عنصر کو ایک نعمت، امانت اور فرض کے طور پر سمجھے، اس کے نزدیک ماحولیاتی تحفظ صرف ایک عالمی دن منانے کا نام نہیں بلکہ روزمرہ کی زندگی میں توازن، سادگی، فطری ہم آہنگی اور روحانی شعور کو اپنانے کا نام ہے، اور یہی وجہ ہے کہ چونیاں جیسے چھوٹے شہر میں اس کی تحریک نے بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں، سوشل میڈیا اور ماحولیاتی اداروں کی توجہ حاصل کی ہے، آج جب دنیا گلوبل وارمنگ، پانی کی قلت، زمینی کٹاؤ، فضائی آلودگی، اور حیاتیاتی تنوع کے بحرانوں سے دوچار ہے، منشا ساجد جیسے لوگ اس بات کی دلیل بن کر ابھر رہے ہیں کہ تبدیلی کا آغاز ہمیشہ فرد سے ہوتا ہے، کہ انقلاب ہمیشہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے پھوٹتا ہے، اور کہ اگر ایک شخص خلوصِ نیت سے ماحول کے لیے اپنا کردار ادا کرے تو وہ ایک پورے سماج کو بیدار کر سکتا ہے، محمد منشا ساجد کا پیغام ہے کہ اگر ہم نے ابھی بھی اپنی روش نہ بدلی، اپنے طرزِ زندگی کو قدرت کے اصولوں کے مطابق نہ ڈھالا، اور زمین، پانی، ہوا اور جانوروں کے ساتھ اپنے تعلق کو نہ سنوارا، تو وہ وقت دور نہیں جب ہم صرف اپنے زوال کا نوحہ لکھنے کے قابل رہ جائیں گے، اس لیے اس کا ہر دن، ہر قدم، ہر گفتگو اور ہر عمل ماحولیاتی بیداری کے اس خاموش جہاد کا حصہ ہے جس کی صدا چونیاں کے کھیتوں سے اٹھ کر عالمی فضاؤں میں گونجنے لگی ہے، اور جس کا مقصد صرف سبزہ، سایہ اور آکسیجن نہیں بلکہ انسان کو اس کی اصل سے جوڑنا، فطرت کو اس کی عظمت دلانا، اور زمین کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس لوٹانا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button