
الخدمت فاونڈیشن کی کارکردگی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔!!
پاکستان کی تاریخ میں آنے والے حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ قدرتی آفات صرف بارشوں، طغیانی یا دریاؤں کے کنارے ٹوٹنے سے نہیں آتیں بلکہ اصل آفات اُس وقت جنم لیتی ہیں جب ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیں، اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ خوابِ غفلت میں مست رہیں، وسائل مخصوص طبقے کے عیش و عشرت پر لٹا دیے جائیں اور غریب عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، یہی وہ پس منظر تھا جس میں بارشوں کے پہلے قطرے نے زمین پر پڑتے ہی ایک قیامت کا نقشہ کھینچ دیا، چھوٹے چھوٹے نالے سمندر کی شکل اختیار کرنے لگے، کچے گھروں کی دیواریں چند لمحوں میں زمین بوس ہو گئیں، مویشیوں کے ریوڑ پانی میں بہہ گئے، بچے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے غائب ہو گئے اور ہزاروں خاندان لمحوں میں بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے آ گئے، گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور جہاں کل تک کھیتوں میں سبزہ لہلہاتا تھا وہاں آج پانی کی بے رحم جھیلیں آباد ہیں، اس قیامت خیز صورتحال میں انسانیت کراہ رہی تھی، عورتیں، بچے، بوڑھے اور نوجوان سب ایک دوسرے کو پکارتے تھے مگر کوئی پکار سننے والا نہ تھا، حکومتی مشینری اپنی ناکامی کے مینار پر خاموش کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی، دعوے بہت تھے مگر عملی میدان خالی، اعلانات بہت ہوئے مگر ایک گلاس صاف پانی اور ایک خشک روٹی تک پہنچانا ناممکن ہو گیا، ایسے میں جب ہر طرف سے ناامیدی چھائی ہوئی تھی اور ریاست اپنے شہریوں کو بچانے میں ناکام ہو گئی تھی تو وہاں الخدمت فاؤنڈیشن کے کارکنان ایک نئی امید بن کر اُبھرے، وہ کارکنان جو نہ کسی مراعات کے خواہش مند تھے اور نہ ہی کسی کی واہ واہ کے طلبگار، انہوں نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو پانی کے سمندر سے نکالا، گرتی دیواروں کے درمیان پھنسے بچوں کو کندھوں پر اٹھایا، ماؤں کو اپنے سروں پر بٹھایا اور بوڑھوں کے ہاتھ پکڑ کر محفوظ مقامات تک پہنچایا، الخدمت والوں نے صرف ریسکیو نہیں کیا بلکہ جب خیمہ بستیاں آباد ہوئیں تو وہاں خوراک، صاف پانی، طبی امداد، کپڑے اور تعلیم تک کی سہولتیں فراہم کر کے یہ احساس دلایا کہ اگر حکومت اپنے فرض میں ناکام ہو گئی ہے تو یہ قوم اپنے اندر وہ جذبہ رکھتی ہے جو سب کچھ کر دکھائے، خیمہ بستیوں میں قائم وہ عارضی اسکول جہاں الخدمت کے رضاکار بچوں کو حوصلہ دے رہے ہیں، وہ طبی کیمپ جہاں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے گھنٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ دن رات کی بنیاد پر مریضوں کو سنبھالا، وہ لنگر خانے جہاں بھوک سے نڈھال جسموں کو دال روٹی میسر آئی اور وہ چھوٹے چھوٹے رضاکار جو اپنی ننھی ہتھیلیوں میں چاول اور آٹا بانٹتے نظر آئے، یہ سب منظر ایک زندہ قوم کی تصویر پیش کر رہے تھے، اس کے برعکس اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے اجلاسوں کا حال یہ تھا کہ فائلوں پر دستخط اور اخبارات میں بیانات سے آگے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، اربوں روپے کی امداد آئی مگر متاثرین کی جھونپڑیوں تک نہ پہنچ سکی، امدادی سامان کے ٹرک شہروں میں رُک گئے اور دیہات کے مکین حسرت بھری نگاہوں سے خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ آئے، وہ چیختی چلاتی زندگیاں جو پانی میں اپنے پیاروں کو کھو چکی تھیں وہ ہر روز ایک نئی اذیت سے گزرتی رہیں، کبھی بارش دوبارہ برستی تو خیموں کے اندر پانی بھر جاتا، کبھی مچھروں اور بیماریوں کا طوفان اٹھتا تو بچے بخار اور ہیضے کی لپیٹ میں آ جاتے، کبھی بھوک کے سائے گہرے ہو جاتے اور کبھی مستقبل کی فکر میں بوڑھے باپ اپنی سفید داڑھی کو مٹھی میں دبا لیتے، لیکن اسی اندھیرے میں الخدمت کے کارکن شمع جلانے والے بنے، پاکستان کا یہ نمبر ون نیٹ ورک جس نے حکومتی اداروں کے مقابلے میں بازی مار لی، ان کے کام نے یہ ثابت کیا کہ اصل حکمرانی خدمت سے ہوتی ہے نہ کہ کرسی سے، ان رضاکاروں نے اپنی جیب سے خرچ کیا، اپنی نیندیں قربان کیں، اپنے گھروں کو چھوڑ کر اجنبی بستیوں میں جا بسے تاکہ متاثرین کو سہارا دے سکیں، یہی وہ کردار ہے جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا، کیونکہ جب اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ اپنے عیش و آرام میں کھوئے رہے تو ان گمنام سپاہیوں نے میدانِ عمل میں اتر کر دکھا دیا کہ پاکستان کی اصل طاقت اس کے عوام ہیں، تباہ کاریاں چاہے جتنی بھی ہوں، اگر انسانیت زندہ ہے تو کوئی طوفان ہرا نہیں سکتا، یہ کالم اس حقیقت کی شہادت ہے کہ چیختی چلاتی زندگیاں آج بھی امید کے چراغ جلا رہی ہیں اور ان چراغوں کو روشن رکھنے والے الخدمت جیسے ادارے ہیں جو اپنی بے مثال قربانیوں اور انسان دوستی کے جذبے سے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے گئے ہیں کہ اصل کامیابی دوسروں کی خدمت میں ہے، یہ وہ سبق ہے جو اس تباہی نے دیا اور یہ وہ پیغام ہے جو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔


