
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس، پی ٹی آئی کا احتجاج اور ملکی معیشت
پاکستان میں سیاسی اور معاشی بحران کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ ایک طرف شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں پاکستان کی بین الاقوامی سفارتی حیثیت کو مضبوط کرنے کی کوششیں جاری ہیں، جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے مسلسل احتجاج اور سیاسی ہٹ دھرمی نے ملکی معیشت کو مزید پیچیدگیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اس صورتحال میں، پاکستان کی حکومت کو دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے: ایک عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو بہتر بنانا اور دوسرا داخلی سیاسی مسائل کو حل کرتے ہوئے معاشی استحکام کی جانب پیش قدمی کرنا۔
شنگھائی تعاون تنظیم، جو کہ 2001 میں قائم ہوئی تھی، ایک اہم علاقائی اتحاد ہے جس میں چین، روس، بھارت، اور پاکستان سمیت کئی وسطی ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون، سلامتی کے مسائل کا حل اور علاقائی استحکام کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان کے لیے SCO کا فورم نہ صرف علاقائی تعلقات کو بہتر کرنے کا ذریعہ ہے، بلکہ یہ پاکستان کے اقتصادی مفادات کو بھی فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
SCO اجلاس میں شرکت پاکستان کے لیے عالمی سطح پر اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اس تنظیم کے رکن ممالک کی مارکیٹس میں پاکستانی برآمدات کے لیے بڑے مواقع موجود ہیں۔ چین اور روس جیسے بڑے اقتصادی طاقتوں کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنا پاکستان کے لیے ناگزیر ہے، خاص طور پر اس وقت جب ملک مالی بحران اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا شکار ہے۔
دوسری جانب، ملکی سیاست میں عدم استحکام ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ تحریک انصاف، جو کہ ماضی میں حکومت کا حصہ رہی ہے، انتخابات میں مبینہ دھاندلی، حکومتی نااہلی، اور معاشی پالیسیوں کے خلاف سخت احتجاج کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کا موقف ہے کہ ملک میں انتخابات جلد از جلد منعقد کیے جائیں تاکہ جمہوریت کو بحال کیا جا سکے۔
اس احتجاج نے ملکی سیاست میں مزید پولرائزیشن پیدا کر دی ہے۔ سڑکوں پر احتجاج اور دھرنے حکومتی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں اور عوامی سطح پر عدم اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی مسلسل ہٹ دھرمی، جو کہ ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی راہیں مسدود کر رہی ہے، نہ صرف سیاسی استحکام کے لیے خطرناک ہے بلکہ معیشت پر بھی براہِ راست منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کے اثرات براہِ راست ملکی معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہیں۔ سڑکوں پر دھرنوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے صنعتی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے اور کاروباری طبقہ پریشان ہے کہ اس سیاسی بحران کا انجام کیا ہوگا۔
احتجاج کے دوران پیدا ہونے والی سیاسی کشمکش نے پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث بنائی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے، جیسے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر غیر ملکی امدادی ادارے، پاکستان کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی بڑے معاشی پروگرام کی منظوری سے قبل سیاسی استحکام کی شرط عائد کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے معاشی اصلاحات کو آگے بڑھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں حکومت کی معاشی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے میں ناکام رہی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور ٹیکسوں کے بوجھ نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کر رہی ہے اور معاشی اصلاحات لا رہی ہے، مگر عوام کو اس کا فوری فائدہ نظر نہیں آ رہا۔
حکومت کی جانب سے کیے گئے معاشی اقدامات جیسے کہ نئے ٹیکسوں کی وصولی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ، اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کی کوششیں عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی ان اقدامات کو عوام دشمن قرار دے کر حکومت پر سخت تنقید کر رہی ہے۔
ایسے حالات میں، شنگھائی تعاون تنظیم جیسے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی شمولیت کو مزید اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ SCO کے رکن ممالک کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینا پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے معاشی بحران سے نکل سکے۔ چین، روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں پاکستان کے لیے اہم تجارتی شراکت دار ثابت ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کی حکومت کو SCO جیسے پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے اپنی برآمدات کو بڑھانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری (CPEC) جیسے منصوبے پاکستان کے لیے طویل المدتی اقتصادی فوائد کا حامل ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ ملکی سیاسی صورتحال مستحکم ہو۔
ملکی معیشت کی بحالی اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے عالمی فورمز پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو داخلی سطح پر سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے احتجاج اور حکومتی پالیسیوں کے درمیان ایک درمیانی راستہ نکالنا ہوگا تاکہ سیاسی کشیدگی کم ہو سکے اور ملک کی معیشت کو دوبارہ پٹری پر ڈالا جا سکے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکے اور عوام کو معاشی ریلیف فراہم کر سکے۔
شنگھائی تعاون تنظیم جیسے فورمز پر کامیابی کا انحصار بھی اسی بات پر ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر کتنا مستحکم ہے۔ اگر سیاسی استحکام نہ ہوا تو نہ صرف ملکی معیشت متاثر ہوگی بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بھی دائو پر لگ سکتی ہے۔