پولیٹیکل اینڈ کرنٹ افئیرز

عابد بھٹی کی برسی اور پر اسرار لمحات ۔۔۔۔۔!!

عابد بھٹی کی دوسری برسی کا دن آیا تو ہر دل غم و سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ ان کی موت نے نہ صرف دوستوں اور خاندان والوں کے دلوں میں ایک بڑا خلا چھوڑا تھا، بلکہ ان کی شخصیت کا اثر ایک دیرپا یاد بن چکا تھا جو ہر دل میں بسا ہوا تھا۔ وہ شخص جو ہمیشہ ہنستے چہروں اور محبت بھری باتوں کا محور رہا، اب اپنے چاہنے والوں کے درمیان نہیں تھا۔ مگر ان کی یادیں، ان کی باتیں، اور ان کا اخلاص ہمیشہ زندہ تھے۔برسی کے موقع پر ان کے گھر کا ماحول غم اور اداسی میں لپٹا ہوا تھا۔ جیسے ہی لوگ ایک ایک کرکے گھر میں داخل ہوئے، فضا میں ایک عجیب سی خاموشی اور ہیبت چھائی ہوئی تھی۔ گھر کے بیرونی دروازے پر ہی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر لیے لوگ جمع ہو رہے تھے۔ گھر کے اندر ایک سنجیدہ اور غمگین ماحول تھا، جیسے ہر چیز پر کوئی بھاری بوجھ پڑا ہو۔ ہر شخص کے چہرے پر ماضی کی یادوں کی جھلک دکھائی دیتی تھی، اور ہر نگاہ میں عابد بھٹی کی شخصیت کا عکس چھلکتا محسوس ہو رہا تھا۔حاجی محمد رمضان، جو ایک بزرگ سینئر صحافی تھے اور عابد بھٹی کے قریبی دوست، اس برسی کے موقع پر خصوصی طور پر آئے تھے۔ ان کا آنا ایک خاص بات تھی، کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی عابد بھٹی کے قریبی حلقے میں شامل رہے تھے اور ان کے درمیان ایک گہری دوستی تھی۔ جیسے ہی حاجی رمضان گھر میں داخل ہوئے، ہر آنکھ ان کی طرف اٹھ گئی۔ ان کے چہرے پر وقت کے گزرنے کا اثر صاف نظر آ رہا تھا، اور ان کے ہاتھوں میں لرزش اور چہرے کی سلوٹیں زندگی کی گہری کہانیاں بیان کر رہی تھیں۔حاجی رمضان نے اپنے دوست کی برسی پر دوستوں اور خاندان والوں سے خطاب کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھے، ان کے ہاتھوں کی لرزش واضح تھی، اور ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلک تھی جو ان کے چہرے کی ہیبت ناک سنجیدگی کے ساتھ ایک عجیب سا تضاد پیدا کر رہی تھی۔ ان کا وجود ایک کھوج، ایک تلاش کی مانند دکھائی دے رہا تھا، جیسے وہ عابد بھٹی کی یادوں میں کھو گئے ہوں۔حاجی رمضان نے بہت دھیرے دھیرے اور پرسوز آواز میں بات کرنا شروع کی۔ ان کے الفاظ میں ایک گہری دانائی اور دنیاوی و دینی پیغام کی جھلک تھی۔ ہر لفظ ان کے دل سے نکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا، جیسے وہ کوئی دنیاوی بات نہیں بلکہ آخرت کی باتیں کر رہے ہوں۔ ان کی باتوں میں دنیا کی فانی حقیقت اور انسان کی آخری منزل کا تذکرہ بار بار آتا رہا۔ ان کے الفاظ سننے والوں کے دلوں پر اثر کرتے جا رہے تھے، اور ماحول میں ایک غیر معمولی سنجیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔”عابد بھٹی ایک ایسا شخص تھا جو نہ صرف دنیا میں اپنی محنت اور لگن کے لیے جانا جاتا تھا، بلکہ دین کا بھی ایک سچا پیروکار تھا۔ وہ ہمیشہ دوستوں کی مدد کے لیے تیار رہتا تھا اور ان کی دعاؤں میں ہمیشہ شامل ہوتا تھا۔ آج ہم یہاں اس کی یاد میں جمع ہیں، اور یہ وقت ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ زندگی کتنی مختصر ہے۔”جیسے ہی حاجی رمضان نے عابد بھٹی کے دنیاوی سفر اور اس کی دینی خدمات کا تذکرہ کیا، ماحول میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی۔ ہر شخص کی نگاہیں نیچی تھیں، اور کچھ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ حاجی رمضان کے چہرے پر دکھ اور کھوج کا ایک گہرا سایہ چھایا ہوا تھا، جیسے وہ کسی غیر معمولی چیز کو محسوس کر رہے ہوں۔ ان کے الفاظ میں ایک عجیب سی گرفت تھی، جیسے وہ موت کی حقیقت اور آخرت کی ناگزیر حقیقت کو بیان کر رہے ہوں۔گھر کے کمرے میں ہر چیز پر ایک عجیب سی بوجھل فضا تھی۔ جیسے ہی حاجی رمضان نے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں بات کی، فضا اور بھی بوجھل ہو گئی۔ لوگوں کی سانسیں تھم سی گئیں، اور ہر کوئی اپنے اپنے خیالات میں گم ہو گیا۔ کمرے میں موجود ہر شخص کے دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ یہ زندگی کتنی مختصر ہے، اور ہم سب کو ایک دن موت کے اس سفر پر روانہ ہونا ہے۔عابد بھٹی کے قریبی دوست عابد کے فقدان کو شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ ان کے درمیان وہ بے حد مقبول تھے اور ان کے لیے وہ ایک رہنما اور مشیر تھے۔ دوستوں کی محفل میں ان کی ہنسی اور ان کی دانشمندی ہمیشہ یاد رہنے والی تھی۔ آج ان کی برسی کے موقع پر ہر دوست کی آنکھوں میں اداسی کی جھلک تھی۔ وہ سب ایک دوسرے کے قریب بیٹھے تھے، لیکن کوئی زیادہ بات نہیں کر رہا تھا۔ سب کو حاجی رمضان کے الفاظ نے گہرائی سے متاثر کیا تھا۔حاجی رمضان کے الفاظ میں دینی پیغام ایک مضبوط ستون کی طرح کھڑا تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی یاد، نبی اکرم ﷺ کی سنت اور آخرت کے بارے میں گفتگو کی۔ ان کی باتوں نے سننے والوں کو یہ احساس دلایا کہ زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے اور ہم کس مقصد کے لیے یہاں ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو دنیا کی محبت سے دوری اختیار کرنے اور آخرت کی تیاری کی ترغیب دی۔”یہ دنیا فانی ہے، اور ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا اصل مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ عابد بھٹی نے اپنی زندگی اسی مقصد کے تحت گزاری، اور ہم سب کو ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔”حاجی رمضان نے اپنے خطاب کا اختتام دعا کے ساتھ کیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ عابد بھٹی کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا باغ بنا دے، اور ان کے خاندان والوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ اس دعا کے بعد فضا میں ایک عجب سی خاموشی چھا گئی۔ ہر شخص کا دل بوجھل تھا، اور ہر نگاہ میں آنسو چھپے ہوئے تھے۔برسی کے اس موقع پر عابد بھٹی کا گھر ایک مقدس مقام کی مانند محسوس ہو رہا تھا، جہاں دوستوں کی محفل میں موت کی حقیقت اور آخرت کی یاد دہانی ہو رہی تھی۔ حاجی رمضان کے الفاظ اور ان کے ہاتھوں کی لرزش نے اس موقع کو اور بھی پر اسرار اور گہرا بنا دیا تھا۔ ہر کوئی اپنی سوچوں میں گم، اپنے اندر کی کھوج میں مصروف تھا۔یہ برسی صرف ایک یادگار نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی لمحہ تھی جو لوگوں کے دلوں پر نقش ہو گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button