
"ملک افضل کھوکھر /جو ہر گلی کا درد جانتا ہے "
لاہور کے سیاسی افق پر اگر کسی نام نے تسلسل، خدمات، ترقیاتی وژن اور عوامی پذیرائی کے امتزاج سے ایک واضح اور ناقابلِ انکار نقوش چھوڑے ہیں تو وہ نام ہے ملک افضل کھوکھر کا، جنہوں نے 2008 سے لے کر آج 2025 تک کے سیاسی سفر میں تین بار قومی اسمبلی کے رکن اور ایک بار ضمنی الیکشن جیت کر نہ صرف عوامی اعتماد حاصل کیا بلکہ خدمت کا جو بیڑہ اٹھایا، وہ معمولی دعووں یا بینروں تک محدود نہ رہا بلکہ عملی میدان میں بے شمار سنگِ میل عبور کیے، وہ چاہے دیہی لاہور کی پسماندگی ہو یا شہری لاہور کی تہذیبی وسعت، انہوں نے ہر جگہ ترقی کی روشنی پھیلائی، 2008 میں جب وہ پہلی بار NA‑128 سے ایم این اے منتخب ہوئے تو حلقے میں نہ سڑکیں تھیں، نہ پانی کی نکاسی، نہ تعلیمی ادارے، نہ بنیادی صحت کی سہولیات، مگر آج اسی حلقے کو دیکھا جائے تو سڑکوں کا جال، واٹر سپلائی کی اسکیمیں، نکاسی آب کے باقاعدہ نظام، سیکڑوں گلیوں کی پختگی، پارکوں کی تزئین، اسٹریٹ لائٹس اور موبائل ہیلتھ کلینک جیسی جدید سہولیات کے مناظر دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی حلقہ ہے جو چند برس پہلے تک مٹی، پانی، دھول اور اندھیرے کا شکار تھا، 2013 میں دوبارہ کامیابی کے بعد انہوں نے ترقیاتی رفتار میں مزید اضافہ کیا، سکیمیں صرف اعلانات تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی سطح پر کام ہوا، لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دیگر محکموں کے ساتھ مسلسل اجلاس، چیک اینڈ بیلنس، عوامی شکایات پر فوری عمل، اور سب سے بڑھ کر حلقے کے لوگوں سے ذاتی رابطہ ان کی سیاست کی پہچان بن گئی، وہ صرف ایم این اے نہیں رہے بلکہ ہر دروازے پر دستک دینے والا نمائندہ بن گئے، 2018 میں نئی حلقہ بندیوں کے تحت NA‑136 سے الیکشن لڑا اور جیت کر ایک بار پھر عوامی خدمت کے جذبے کو دہراتے ہوئے ہر گاؤں، ہر بستی، ہر یونین کونسل میں جدید دور کی بنیادی سہولیات پہنچائیں، "کلینک آن وہیلز” کے ذریعے دیہی علاقوں کے مریضوں کو مفت علاج مہیا کیا، لاکھوں روپے کی لاگت سے متعدد گلیوں کی تعمیر، نکاسی آب کی بہتری، اور غریبوں کو چھت مہیا کرنے کے لیے "اپنی چھت اپنا گھر” جیسے انقلابی منصوبوں میں بھرپور کردار ادا کیا، نہ صرف ترقیاتی منصوبے بلکہ انہوں نے معاشی سطح پر بھی عام شہری کو فائدہ پہنچانے کے لیے پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر ماڈل کارٹس اسکیم کی قیادت کی، جس کے تحت ہزاروں چھوٹے ریڑھی بانوں کو معیاری، صاف ستھری، حکومت سے منظور شدہ کارٹس فراہم کی گئیں تاکہ وہ باعزت روزگار کما سکیں، انہیں اس منصوبے کا صوبائی اسٹیئرنگ کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا، جس پر وہ مسلسل کام کر رہے ہیں، ان کا وژن صرف انفراسٹرکچر تک محدود نہیں بلکہ انسانی فلاح اور عزتِ نفس کی بحالی پر بھی مرکوز ہے، 2024 کے ضمنی الیکشن NA‑125 میں ان کی غیر معمولی فتح اس بات کی گواہی تھی کہ آج بھی عوام ان پر اسی طرح اعتماد کرتی ہے جیسے 2008 میں کیا تھا، وہ شخص جو کبھی اپنے بھائیوں کے ہمراہ زمینوں کے تنازع میں عدالتوں میں گھسیٹا گیا، مگر تمام قانونی مراحل سے سرخرو ہو کر نکلے، آج وہی ملک افضل کھوکھر اپنے حلقے میں ایک عظیم تعمیراتی انقلاب کی علامت بن چکے ہیں، نہ کسی میڈیا پر شور، نہ ٹی وی شوز میں دعوے، نہ روایتی نعرے بازی، صرف کام، خدمت، خلوص، اور عوام کے ساتھ ایک بے ساختہ جُڑاؤ، وہ سیاسی نمائندہ جس نے حلقے کے ہر اسکول میں فرنیچر، ٹائلز، پنکھے، اور دیواریں تک بہتر کروائیں، جس نے نوجوانوں کے لیے گراؤنڈز بنوائے، کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی، جس نے ہر جلسے میں وعدہ کیا اور پھر اس پر عمل بھی کیا، جس نے ترقیاتی فنڈز کو ذاتی تشہیر کی بجائے اجتماعی فلاح پر خرچ کیا، وہ نمائندہ جو ایم پی اے کی حدود تک بھی پہنچا اور یوسی سطح پر بھی، جو ہر وقت عوام میں موجود رہا، جو رات گئے تک لوگوں کے فون سنتا رہا، شادی، جنازے، بیمار پرسی اور مسائل سننے ہر موقع پر دستیاب رہا، جس نے پارٹی لیڈر شپ کا اعتماد بھی حاصل کیا اور مخالفین کی تنقید کا جواب بھی اپنی کارکردگی سے دیا، ان کا یہ مسلسل 15 سالہ سفر ہر اس شخص کے لیے مثال ہے جو سیاست کو صرف تقریروں، جلسوں اور سوشل میڈیا پر لائکس تک محدود سمجھتا ہے، کیونکہ اصل سیاست وہی ہے جو زمین پر نظر آئے، گلی کے بچے، بوڑھے بزرگ، خواتین، مزدور، دکاندار اور کسان ہر کوئی اگر اپنے نمائندے کو "اپنا” کہے تو یہی سب سے بڑا اعزاز ہے، ملک افضل کھوکھر کی کارکردگی نہ صرف قابلِ رشک ہے بلکہ ایک حوالہ ہے اس سچائی کا کہ عوامی نمائندے اگر چاہیں تو محدود وسائل میں بھی بڑے انقلابات برپا کر سکتے ہیں، لاہور کے جنوبی اور مضافاتی علاقوں میں آج بھی اگر آپ کسی دوکاندار، محنت کش، استاد یا امام مسجد سے پوچھیں کہ کون سا نمائندہ واقعی آیا تھا، کام کر کے گیا، تو ان کی زبان پر یہی نام ہو گا: "افضل کھوکھر”۔


