پولیٹیکل اینڈ کرنٹ افئیرز

سیاسی منظر نامہ کی نئی کروٹ ۔۔۔۔۔!!

پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ ہنگامہ خیز رہی ہے، لیکن موجودہ حالات نے سیاست کو ایک بار پھر پیچیدہ اور دلچسپ بنا دیا ہے۔ 13 اور 14 دسمبر کی درمیانی رات وہ وقت ہے جب بڑے فیصلے متوقع ہیں، اور سیاسی منظرنامہ ایک نئی کروٹ لے سکتا ہے۔ کرداروں کی تبدیلی، طاقت کے مراکز کی نئی صف بندی اور عوامی حمایت کا امتحان، سب کچھ سیاسی شطرنج کے اس کھیل میں شامل ہے۔عمران خان، جنہیں ان کے حامی پیار سے "کپتان” کہتے ہیں، ایک ایسے سیاستدان ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے مؤقف پر ڈٹ جانے کی روایت قائم رکھی ہے۔ چاہے پاناما لیکس کا معاملہ ہو، اپوزیشن کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی ہو، یا پھر موجودہ حکومت کے خلاف احتجاج، کپتان نے کبھی پیچھے ہٹنے کا عندیہ نہیں دیا۔موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تنازعات کے بعد، ان کے حامیوں کے لیے یہ ایک چیلنج کا وقت ہے۔ مگر کپتان نے اپنی روایتی جارحانہ حکمت عملی کو جاری رکھا ہے۔ ان کی موجودہ سیاسی تحریک، جو "حقیقی آزادی” کے نام سے چل رہی ہے، ان کے لیے ایک بڑی آزمائش بن چکی ہے۔سیاسی حلقوں میں یہ خبریں گرم ہیں کہ 13 اور 14 دسمبر کی درمیانی رات اہم فیصلے کیے جانے والے ہیں۔ ان فیصلوں کا تعلق نہ صرف حکومت کے مستقبل سے ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی صفوں میں بھی تبدیلیاں آئیں۔ یہ وقت طاقتور کرداروں کے لیے نئی سمتیں متعین کرنے کا ہوسکتا ہے، جہاں سیاسی کھیل کے قوانین دوبارہ تحریر کیے جائیں گے۔پاکستان کی سیاست میں کرداروں کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ کس طرح کچھ سیاستدان عوامی حمایت کھو بیٹھے اور نئے چہرے منظر عام پر آئے۔ موجودہ حالات میں بھی اس بات کا امکان ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔حکومت کے لیے یہ وقت بڑا نازک ہے، جہاں عوامی دباؤ اور معیشت کی خراب صورتحال انہیں مزید کمزور کر رہی ہے۔ دوسری طرف، کپتان کے حامیوں کی امیدیں بڑھ رہی ہیں کہ جلد حالات ان کے حق میں پلٹ سکتے ہیں۔سیاسی شطرنج کے کھیل میں ہر چال بڑی حکمت عملی کا تقاضا کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں جو حکومتی بیانات اور اقدامات سامنے آئے ہیں، ان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی بڑی چال کی تیاری کر رہے ہیں۔دوسری جانب، اپوزیشن بھی خاموش نہیں ہے۔ عوامی جلسوں، احتجاجوں اور سوشل میڈیا کی جنگ کے ذریعے وہ حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ ان حالات میں کسی بھی طرف سے ایک بڑی سیاسی چال کا امکان موجود ہے، جو پورے منظرنامے کو بدل سکتی ہے۔عمران خان کے حامی، جنہیں "ٹائیگرز” کہا جاتا ہے، ان حالات میں پُرامید ہیں کہ ان کے لیے اچھے دن آنے والے ہیں۔ ان کے لیے یہ وقت نہ صرف اپنے قائد کے ساتھ وفاداری کا ہے بلکہ تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور محنت کا بھی۔پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال بھی اس کھیل میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور عوامی مسائل نے حکومت کی مقبولیت کو متاثر کیا ہے۔ عوام اب ایک ایسی قیادت کی تلاش میں ہیں جو ان کے مسائل کو حل کر سکے۔پاکستان کی سیاست کا یہ موڑ نہایت اہم ہے۔ 13 اور 14 دسمبر کی رات کے فیصلے ملک کی سمت متعین کریں گے۔ کیا کپتان ایک بار پھر سرخرو ہوں گے؟ کیا حکومت اپنے قدم جمائے رکھ سکے گی؟ یا پھر کوئی نیا کردار اس کھیل میں داخل ہوگا؟ یہ سب سوالات اگلے چند دنوں میں واضح ہو جائیں گے۔سیاسی شطرنج کے اس کھیل میں ہر چال کا اپنا وزن ہے۔ کپتان کی استقامت، عوامی دباؤ اور کرداروں کی تبدیلی نے حالات کو نہایت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے: پاکستانی سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ 13 اور 14 دسمبر کی رات کے فیصلے صرف ایک رات کی کہانی نہیں ہوں گے، بلکہ وہ آنے والے کئی مہینوں کی سیاست کو متاثر کریں گے۔ٹائیگرز کے لیے، یہ وقت اپنے قائد کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے، اور عوام کے لیے، یہ وقت اپنی ترجیحات کا تعین کرنے کا ہے۔ تبدیلی کی یہ ہوا کس طرف جائے گی؟ اس کا جواب وقت دے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button