
جنوبی ایشیا میں ایک نیا تجارتی خلا …….!!
جب دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کے صدارتی میدان میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا تاجر ذہن رکھنے والا شخص داخل ہوتا ہے تو اس کے فیصلے محض سفارتی بیانات یا سینیٹ کی روایتی سیاست سے الگ، براہِ راست معیشت، تجارتی پالیسیاں اور عالمی سپلائی چین پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، بالخصوص جب وہ "امریکہ فرسٹ” کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ایسی پالیسیوں پر عملدرآمد شروع کرتا ہے جو امپورٹس کو محدود کرنے، گھریلو صنعت کو تحفظ دینے اور غیر ملکی مصنوعات پر بھاری ٹیرف نافذ کرنے پر مرکوز ہوں، یہی کچھ اب ایک بار پھر امریکی سیاست میں ہورہا ہے، جہاں ٹرمپ کی ممکنہ واپسی کی گونج نے بنگلہ دیش جیسی ممالک میں بے چینی پیدا کردی ہے، کیونکہ اُن کی گارمنٹ ایکسپورٹ انڈسٹری جو برسوں سے امریکی مارکیٹ پر انحصار کرتی آئی ہے، اب ٹرمپ کے مجوزہ پینتیس فیصد ٹیرف کی زد میں آ چکی ہے، چنانچہ امریکی برانڈز جیسے کہ GAP، Walmart، Levi’s، Target اور دیگر معروف کمپنیوں نے بنگلہ دیش سے جاری یا متوقع آرڈرز روکنے شروع کر دیے ہیں، بعض برآمدکنندگان کی جانب سے تو تیار شدہ کھیپیں بندرگاہوں پر رُکی ہوئی ہیں کیونکہ خریدار امریکی قوانین کی تبدیلی کے انتظار میں ہیں، اس غیر یقینی صورت حال نے نہ صرف بنگلہ دیش کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں ایک نیا تجارتی خلا پیدا کر دیا ہے جسے اگر بروقت سمجھا جائے تو پاکستان اپنی گرتی ہوئی برآمدات کو سہارا دے سکتا ہے، اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب ہماری گارمنٹ انڈسٹری، جو کبھی کراچی، فیصل آباد، سیالکوٹ اور لاہور کی فیکٹریوں میں ہزاروں مزدوروں کو روزگار دیتی تھی، آج بے یقینی، لاگت میں اضافے، توانائی بحران اور پالیسی کے فقدان کا شکار ہو کر بے جان ہو چکی ہے، اس کے لیے ٹرمپ کے پینتیس فیصد ٹیرف ایک نئی زندگی کی نوید ہو سکتے ہیں بشرطیکہ پاکستان کی حکومت، ایکسپورٹرز اور تجارتی تنظیمیں ہوش مندی اور چابک دستی کا مظاہرہ کریں، یہ امر انتہائی اہم ہے کہ موجودہ وقت میں امریکہ نے پاکستان پر کسی قسم کا نیا ٹیرف عائد نہیں کیا، اور نہ ہی پاکستان گارمنٹس کو اس زمرے میں شامل کیا گیا ہے جن پر نئی کسٹم ڈیوٹیز لگنے جا رہی ہیں، ٹرمپ کے مشیروں کی جانب سے جو فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں ان میں چین، میکسیکو، بنگلہ دیش، ویتنام اور کینیڈا سرفہرست ہیں جبکہ پاکستان یا تو غیر متعلق ہے یا کسی رعایتی زمرے میں رکھا جا رہا ہے، اس لیے پاکستان کے لیے اب وقت ہے کہ وہ امریکی درآمد کنندگان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے، اپنے کم ٹیرف کا فائدہ بتائے اور فوری طور پر اپنی گارمنٹ فیکٹریوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ریگولیٹ کرے، فیشن، اسپورٹس ویئر، کَژوئل اور ڈینم مصنوعات پر خصوصی توجہ دے، ترجیحی طور پر ایسے آرڈرز کی جانب بڑھے جو پہلے بنگلہ دیش کو دیے جاتے تھے، کیونکہ یہ خالصتاً محنت پر مبنی مصنوعات ہیں جو مشین سے زیادہ انسانی ہنر اور لیبر پر انحصار رکھتی ہیں، اور پاکستان کے پاس ایسے ورکرز کی کوئی کمی نہیں، اگر حکومت فوری طور پر ایکسپورٹ زونز میں توانائی، مالیاتی انسینٹیوز، اور لاجسٹک سہولیات فراہم کرے تو ہم چھ ماہ کے اندر امریکہ کے دس سے پندرہ بڑے امپورٹرز کو قائل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے نئے آرڈرز پاکستان کو منتقل کریں، ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر پاکستان صرف 10 فیصد بنگلہ دیشی شیئر بھی حاصل کر لے تو ہمیں 2 ارب ڈالر سالانہ کا فائدہ ہو سکتا ہے، جو ہماری ایکسپورٹ میں 7 فیصد کا اضافہ ہو گا، لیکن اس کے لیے صرف تقاریر نہیں، عملی اقدامات درکار ہیں، جن میں وزارت تجارت، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی، پاکستانی سفارت خانے، اور بڑے ایکسپورٹرز کا مربوط نیٹ ورک قائم کرنا ہو گا جو ہر امریکن برانڈ سے رابطے میں آ کر اُنہیں یہ باور کرائے کہ پاکستان اس وقت دنیا کی بہترین متبادل منزل بن سکتا ہے، یہاں اجرتیں نسبتاً کم ہیں، مزدور تجربہ کار ہیں، معیار عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے، اور سب سے اہم بات یہ کہ امریکہ سے ہمارے تجارتی تعلقات اس وقت غیر متنازع ہیں، جبکہ چین، بنگلہ دیش، میکسیکو وغیرہ شدید سیاسی و اقتصادی دباؤ میں ہیں، اگر پاکستانی چیمبرز آف کامرس اس موقع پر بھی خاموش رہے اور کسی حکومتی ڈیلیگیشن نے امریکی کمپنیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہ کیے تو ہم ایک نایاب تاریخی موقع ضائع کر بیٹھیں گے، یاد رہے کہ دنیا کی تجارت مواقع کے انتظار میں نہیں رکتی بلکہ جو قومیں ان مواقع کو پہچان کر اُس سمت دوڑتی ہیں وہی عالمی مارکیٹ کی دوڑ میں زندہ رہتی ہیں، لہٰذا اس وقت ہمیں "ٹرمپ ٹیرف” سے ڈرنے کی بجائے اسے ایک "ٹرمپ تحفہ” سمجھنا چاہیے، اور پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اس مقام پر دوبارہ لا کر کھڑا کرنا چاہیے جہاں اس کی گونج برکلے، شکاگو، نیویارک اور لاس اینجلس کی مارکیٹوں میں سنی جاتی تھی، پاکستان کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے، صرف قیادت میں ویژن کی کمی ہے، اگر یہ خلا پُر کیا جا سکے تو ٹرمپ کے پینتیس فیصد ٹیرف بنگلہ دیش کے لیے آفت، لیکن پاکستان کے لیے نعمت بن سکتے ہیں۔


