
قلم کا اختیار………..!!
قلم محض ایک لکیر کھینچنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ تقدیر کے فیصلے لکھنے والی طاقت ہے۔ انسانی تاریخ کے صفحات پر جب بھی قلم نے حرکت کی ہے، یا تو اس نے انصاف کے چراغ روشن کیے ہیں یا ظلم کے اندھیرے پھیلائے ہیں۔ قلم کے ہر لفظ میں مستقبل کی سمت چھپی ہوتی ہے۔ یہی قلم کبھی آئین تحریر کرتا ہے، کبھی فیصلے سناتا ہے، کبھی ایک فرد کو تخت نشینی بخشتا ہے اور کبھی ایک قبیلے یا قوم کو غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس قلم کو چلانے والے ہاتھ نے عدل لکھا یا ظلم؟ انسانیت کی بقا لکھی یا تباہی؟ عزتِ آدم کو بلند کیا یا خاک میں ملا دیا؟اکثر حکمران، منصب دار اور فیصلے صادر کرنے والے جب اپنی تاریخ کے آئینے میں جھانکتے ہیں تو ایک ہی عذر دہراتے ہیں: "ہمارے پاس اختیار نہ تھا۔ حالات نے مجبور کیا۔ وقت نے فیصلہ کروایا۔” مگر یہ عذر ان کے اپنے اعمال کے بوجھ کو ہلکا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جب ان کے ہاتھ میں قلم تھا تو وہ ہر فرمان جاری کر سکتے تھے۔ انہوں نے چاہا تو کسی کو تخت سے گرا دیا، چاہا تو کسی کو زنجیروں میں جکڑ دیا۔ یہی اختیار تو ظلم کے اصل ثبوت ہیں۔یہ دنیا کسی کی جاگیر نہیں بلکہ امتحان گاہ ہے۔ یہاں ہر لفظ، ہر حکم، ہر فیصلہ محفوظ ہو رہا ہے۔ قرآن نے قلم کی عظمت کو یوں بیان کیا: "نٓ، والقلم وما یسطرون”۔ وہ دن دور نہیں جب قلم کی ہر سیاہی کو گواہ بنایا جائے گا، ہر دستخط کو سوال کا سامنا کرنا ہوگا اور ہر فیصلے پر بازپرس ہوگی۔ یہ صرف بڑے بڑے احکام نہیں ہوں گے بلکہ چھوٹی چھوٹی زیادتیاں بھی شمار ہوں گی۔ کسی کمزور کی فریاد کو نظرانداز کرنا، کسی مظلوم کو دھتکار دینا، کسی سچائی کو دبانا، یہاں تک کہ کسی دل کو دکھا دینا بھی حساب کے ترازو میں لایا جائے گا۔یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم کا ہر فرمان، ہر تحریر، ہر فیصلہ خود گواہی بن کر کھڑا ہوگا۔ عدل کا ترازو کبھی نہیں جھکے گا اور انصاف کا قلم کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ طاقت کے نشے میں صادر کیے گئے جبر کے یہ احکام کل خود قلم والے کے خلاف گواہی دیں گے۔انسانوں کو غلام بنانے والے کل خود غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جائیں گے۔ جنہوں نے حق دبایا وہ خود حق کے سامنے رسوا ہوں گے۔ جنہوں نے طاقت کے زعم میں فیصلے کیے وہ کل بے بسی کے عالم میں کھڑے ہوں گے۔ یہ وہ انجام ہے جسے تاریخ بار بار دہراتی آئی ہے، مگر طاقت کے اندھے اور منصب کے اسیر اسے دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔آج ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بیماری یہی ہے کہ قلم والے انصاف کو پسِ پشت ڈال کر ظلم کے فرمان لکھتے ہیں۔ فیصلے طاقتور کے حق میں اور کمزور کے خلاف صادر ہوتے ہیں۔ ادارے طاقت کے مراکز کے سامنے جھک جاتے ہیں اور غریب کا مقدمہ کاغذوں میں دفن ہو جاتا ہے۔اصلاح کا تقاضا یہ ہے کہ قلم عدل لکھے، ظلم نہیں۔ قانون رحم کو اپنائے، جبر کو نہیں۔ فیصلے حق کے ساتھ ہوں، طاقت کے ساتھ نہیں۔ کمزور کے آنسوؤں کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی طاقتور کی مسکراہٹ کو دی جاتی ہے۔قلم کی طاقت زمین پر اللہ کی امانت ہے۔ یہ قلم معاشرے کو ظلمت سے روشنی کی طرف بھی لے جا سکتا ہے اور روشنی سے ظلمت کی طرف بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قلم والا اپنے اختیار کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔اے قلم والے! انسانیت کی عزت کو پامال نہ کرو۔ عدل لکھو، انصاف کرو، رحم کو قانون بناؤ۔ یاد رکھو، تم جب قلم سے الفاظ لکھتے ہو تو دراصل اپنی تقدیر بھی لکھ رہے ہوتے ہو۔ یہی وہ روشنی ہے جو معاشرے کو ظلمت سے نکال کر نور کے سفر پر گامزن کر سکتی ہے۔



