
کوٹرادھاکشن میںادویات مافیا بے لگام
کوٹ رادھا کشن ضلع قصور میں سردی کی آمد جہاں ایک طرف موسم میں خوشگواری لے کر آئی ہے وہیں دوسری جانب موسمی بیماریوں کی ایک ایسی لہر نے جنم لیا ہے جو عوام کے لیے شدید تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ نزلہ، زکام،کھانسی،بخار،الرجی،گلے اور سینے کے امراض میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہےخاص طور پر بچے، بزرگ اور کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے افراد ان بیماریوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ سرکاری و نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں مریضوں کا رش اس امر کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ صحت عامہ کی صورتحال بتدریج سنگین رخ اختیار کر رہی ہے مگر اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ علاج کا بنیادی ذریعہ یعنی ادویات عام شہری کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
مہنگائی پہلے ہی عوام کی کمر توڑ چکی ہے۔ اشیائے خوردونوش، بجلی، گیس اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے متوسط اور غریب طبقے کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ ایسے حالات میں جب بیماری گھر کا دروازہ کھٹکھٹائے اور علاج کے لیے درکار ادویات یا تو مارکیٹ میں دستیاب نہ ہوں یا پھر من مانے ریٹس پر فروخت کی جا رہی ہوں تو یہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔ کوٹ رادھا کشن کی میڈیکل مارکیٹس میں عام استعمال کی ادویات جیسے کھانسی کے سیرپ،بخار اور درد کی گولیاں،اینٹی الرجی،اینٹی بائیوٹکس اور سانس کے امراض میں استعمال ہونے والی ادویات کی شدید قلت دیکھی جا رہی ہے بعض ادویات مکمل طور پر غائب ہیں جبکہ جو دستیاب ہیں وہ سرکاری مقررہ قیمتوں سے کہیں زیادہ مہنگی فروخت ہو رہی ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ہر سال سردیوں کے موسم میں یہی منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ادویات کی طلب میں اضافے کے ساتھ ہی ذخیرہ اندوز اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث عناصر سرگرم ہو جاتے ہیں۔جان بچانے والی ادویات کو دانستہ طور پر مارکیٹ سے غائب کر کے گوداموں میں ذخیرہ کر لیا جاتا ہے اور پھر مجبور مریضوں کو کئی گنا زائد قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے مگر حیرت انگیز طور پر متعلقہ ریاستی ادارے یا تو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا ان کی کارروائیاں صرف کاغذی حد تک محدود دکھائی دیتی ہیں۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان، پرائس کنٹرول کمیٹیاں، محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ادویات کی دستیابی، معیار اور قیمتوں پر کڑی نظر رکھیں مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔نہ تو میڈیکل سٹورز کی موثر چیکنگ ہو رہی ہے نہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف مثال بننے والی کارروائیاں سامنے آ رہی ہیں اور نہ ہی عوام کو یہ اعتماد حاصل ہے کہ ان کی شکایات پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ بلیک مارکیٹنگ مافیا بے خوف ہو کر اپنا کاروبار چلا رہا ہے اور انسانی جانوں کو منافع کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
ادویات ساز کمپنیوں کے کردار پر بھی سنگین سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ آئے روز قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے مگر اس اضافے کی کوئی معقول اور شفاف وضاحت سامنے نہیں آتی۔عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر قیمتوں کے تعین اور نگرانی کے لیے باقاعدہ ادارے موجود ہیں تو پھر یہ بے لگام مہنگائی کس کی سرپرستی میں ہو رہی ہے؟ کیا انسانی جانوں کی کوئی وقعت نہیں رہی؟ کیا ادویات محض ایک تجارتی جنس بن چکی ہیں جس کا مقصد صرف منافع کمانا رہ گیا ہے؟
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی صحت کے شعبے میں محض بیانات، وعدوں اور دعوؤں تک محدود نظر آتی ہے۔ زمینی سطح پر نہ تو سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی مکمل دستیابی یقینی بنائی گئی ہے اور نہ ہی بنیادی سہولیات میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔غریب مریض یا تو ادھورا علاج کروانے پر مجبور ہے یا پھر قرض لے کر مہنگی ادویات خرید رہا ہے۔ کئی خاندان ایسے ہیں جن کے لیے ایک مریض کا علاج پورے گھر کے بجٹ کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ یہ ایک خاموش انسانی المیہ ہے جو آہستہ آہستہ معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اکثر ہسپتالوں میں بنیادی ادویات دستیاب نہیں ہوتیں، جس کے باعث مریضوں کو باہر سے دوائیاں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ایسے میں جب مارکیٹ میں ادویات مہنگی یا نایاب ہوں تو غریب آدمی کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا۔ صحت جو ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے وہ ایک مہنگا خواب بنتی جا رہی ہے جس تک رسائی صرف صاحبِ حیثیت طبقے کو حاصل ہے۔
یہ صورتحال محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری اور ہنگامی بنیادوں پر ادویات کی قیمتوں پر سخت کنٹرول نافذ کیا جائے۔ بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف بلا امتیاز کریک ڈاؤن کیا جائے اور میڈیکل سٹورز کی باقاعدہ اور مؤثر چیکنگ کو یقینی بنایا جائے۔جو عناصر انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں ان کے خلاف مثال بننے والی کارروائیاں ہونی چاہئیں تاکہ آئندہ کوئی اس جرم کی جرات نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں معیاری اور مفت ادویات کی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔اگر ریاست واقعی عوام کی فلاح چاہتی ہے تو صحت کے شعبے کو ترجیح دینا ہوگی۔صرف اعلانات اور کاغذی منصوبوں سے عوام کو ریلیف نہیں ملتا بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات، شفاف نگرانی اور مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
کوٹ رادھا کشن ضلع قصور کے عوام آج یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا سردی ہر سال اسی طرح بیماریوں کے ساتھ آئے گی اور ادارے ہر سال اسی طرح خوابِ غفلت میں مبتلا رہیں گے؟ کیا عوام کو بنیادی علاج کے لیے بھی احتجاج اور فریاد کا سہارا لینا پڑے گا؟ محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام، صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں سے پرزور مطالبہ ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا فوری نوٹس لیں، عملی اقدامات کریں اور عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کریں کیونکہ ادویات کوئی عیاشی نہیں بلکہ زندگی کی بنیادی ضرورت ہیں اور زندگی کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔


