
"نکاح مشکل، زنا آسان – ہم کس طرف جا رہے ہیں؟”
(تحریر ملک یاسر مقصود)
یہ کیسا معاشرہ بن چکا ہے جہاں نکاح جیسے پاکیزہ بندھن کو اتنا دشوار کر دیا گیا ہے کہ زنا عام ہو چکا ہے؟ مہنگائی اور بیروزگاری نے پہلے ہی لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں، لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ نکاح کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ نتیجہ؟ حرام کاری، بے حیائی، اور ایسے نومولود جو گلیوں میں پڑے سسک رہے ہیں، جن کا کوئی نام ہے نہ پہچان۔گزشتہ ہفتے پنڈی گھیب میں دو معصوم زندگیاں کوڑے کے ڈھیر میں پھینکی گئیں۔ ان کے والدین کون تھے؟ کوئی نہیں جانتا۔ وہ بچے کیوں اس حال کو پہنچے؟ اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں نکاح کو اتنا مہنگا اور مشکل بنا دیا گیا ہے کہ حرام کا راستہ آسان لگنے لگا ہے۔ مہنگے جہیز، بےجا رسومات، بھاری باراتوں اور فضول تقریبات نے اس مقدس رشتے کو کاروبار بنا دیا ہے۔ہم سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں! جو لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں، جو نوجوانوں پر نکاح کے دروازے بند کرتے ہیں، جو معاشرتی دباؤ کو دین پر فوقیت دیتے ہیں – وہ سب ان لاوارث بچوں کے قاتل ہیں! یہ وہی معاشرہ ہے جہاں مسجد میں نکاح کرنے والے کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن زنا کرنے والے کو "بس غلطی ہو گئی” کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جاگنے کا ہے! اگر ہم نے آج نکاح کو آسان نہ کیا، اگر ہم نے اپنی روایات کو دین کے تابع نہ کیا، تو یاد رکھیں، یہ بےنام بچے صرف کوڑے کے ڈھیر تک محدود نہیں رہیں گے۔ یہ ظلم، یہ بے راہ روی، یہ اندھیرا ہر گھر میں داخل ہوگا۔ ابھی بھی وقت ہے، نکاح کو عام کیجیے، ورنہ زنا کا عذاب پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لے گا!