پولیٹیکل اینڈ کرنٹ افئیرز

غفران کامل۔۔۔ جدید غزل کا سحر آفریں مسافر

شاعری ازل سے دل و دماغ کی وہ لطیف ترکیب رہی ہے جس میں جذبات و احساسات، فکر و تخیل اور شعور و وجدان ایک دوسرے میں گُھل کر ایسی صوتی و معنوی کائنات کی تشکیل کرتے ہیں جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔۔۔ عصرِ حاضر کی غزل جب اپنی ہزاروں سالہ روایت سے نکل کر جدید معنویت کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو چند ایسے نام سامنے آتے ہیں جو اس سفر کے نقیب بھی ہیں اور امین بھی۔۔۔ انہی میں ایک معتبر اور ممتاز نام جنابِ غفران کامل کا ہے، جو اپنی شاعری میں نہ صرف کلاسیکی غزل کی لطافت کو محفوظ رکھتے ہیں بلکہ نئی روح، نئی آگہی اور نئے شعور کے ساتھ اس میں ایسی جہتیں پیدا کرتے ہیں جو قاری کو فکر کے نئے دریچوں سے روشناس کراتی ہیں۔۔۔

غفران کامل کی غزل کا امتیاز صرف اظہار کی ندرت میں نہیں بلکہ فکر کی اس گہرائی میں ہے جو ہر شعر کو ایک کائنات میں بدل دیتی ہے۔۔۔ ان کے اشعار میں جو داخلی کرب، جو وجودی سوالات اور جو عصری اضطراب کارفرما ہے، وہ عصرِ جدید کے انسان کی تشنہ کام روح کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔۔۔
چنانچہ جب شاعر کہتا ہے:

میری ایسے پست مکان میں تھی گزر بسر
جہاں پورے قد سے قیام کرنا محال تھا

تو گویا ایک پوری تہذیب کی ٹوٹی ہوئی ریڑھ کی ہڈی سامنے آ جاتی ہے۔۔۔ یہ شعر محض ذاتی شکست کا اظہار نہیں بلکہ اس پورے عہد کا نوحہ ہے جس میں انسان اپنی قامتِ معنوی کو قائم رکھنے میں ناکام ہو چکا ہے۔۔۔ پورے سماجی تناظر میں یہ مصرعے تہذیبی زوال کی الم ناک تصویر بن جاتے ہیں۔۔۔

غفران کامل کا تخلیقی کمال یہ ہے کہ وہ روایتی غزل کی محبوبہ پرستی سے نکل کر انسان اور اس کے وجودی بحران کو مرکزِ سخن بناتے ہیں۔۔۔ ان کے کلام میں جا بہ جا اجتماعی غفلت، خوابیدہ شعور اور لاشعوری جمود کی شدید کسک محسوس کی جا سکتی ہے، جیسے اس شعر میں:

یہ گراں خواب تمدن کے اثر یافتہ لوگ
ایک آواز لگانے سے کہاں جاگتے ہیں

یہاں شاعر نے مروجہ معاشرتی بے حسی پر ایسی گہری ضرب لگائی ہے جو فلسفہء اجتماع اور تاریخ کے تسلسل کو بھی سوالیہ نگاہ سے دیکھتی ہے۔۔۔ ایک آواز کی بے اثری درحقیقت صدیوں کے سکوت کا مرثیہ بن جاتی ہے۔۔۔

غفران کامل کی شاعری میں جمالیات کا وہ طلسم بھی بدرجہ اتم موجود ہے جو قاری کو باندھ لیتا ہے مگر یہ طلسم محض تزئین کا سامان نہیں بلکہ ایک فکری پیچیدگی اور جمالیاتی گہرائی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔۔۔ وہ خود اپنی تخلیقی دنیا کو یوں بیان کرتے ہیں:

میں طلسمات کی دنیا میں قلم لے آیا
مسئلہ ہے کہ یہاں لوگ عصا مانتے ہیں

یہاں "طلسمات” اور "عصا” جیسے الفاظ ایک ایسی معنوی تہہ پیدا کرتے ہیں جہاں حقیقت اور فریب، آگہی اور وہم، روشنی اور دھوکہ۔۔۔ سب ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔۔۔ یہ مصرع دراصل آج کے عہد کی فکری الجھنوں کا علامتی اظہار ہے۔۔۔

غفران کامل کے ہاں امید کی کرن بھی اپنی تمام تر تلخیوں کے باوجود زندہ ہے۔۔۔ وہ فنا کے سایوں میں بھی حیات کی جھلک دیکھتے ہیں اور یاس کے بیچوں بیچ امکان کی روشنی تلاش کرتے ہیں۔۔۔ جیسے کہتے ہیں:

جوہرِ غم بھی پلٹ تال کے آغاز میں ہے
یعنی امید نئے سال کے آغاز میں ہے

یہ رجائیت، یہ اندھیروں کے اندر اجالے کی جستجو، غفران کامل کی شاعری کو محض نوحہ گری سے نکال کر تخلیقی امکان کا استعارہ بنا دیتی ہے۔۔۔ ان کے اشعار میں مایوسی کے پردے چاک کر کے ایک نئی صبح کی نوید چھپی ہوئی ہے۔۔۔

وجود کی مسافت، وقت کے تیروں کا زخم اور بکھرتے خوابوں کو جوڑنے کی لاحاصل جدوجہد ان کی شاعری میں بار بار ابھرتی ہے۔۔۔ دیکھیے:

کسی صدا کے تعاقب میں رات دوڑتا ہوں
میں ریزہ ریزہ بدن آن صبح جوڑتا ہوں

یہاں شاعر کی تھکن، اس کی جدوجہد اور اس کی ناقابلِ تسخیر امید ایک ایسے داخلی منظرنامے کو تخلیق کرتی ہے جہاں رات کی سرد مہری کے باوجود صبح کی نوید پر ایمان قائم ہے۔۔۔

غفران کامل کا شعری کینوس وقت اور زمانے کے تضادات کو بھی اپنے دامن میں سمیٹتا ہے۔۔۔ وہ تمنا کے کرب، انتظار کی طوالت اور حقیقت کے مکاشفے کو یوں بیان کرتے ہیں:

کیا تمنا پہ گزرتی ہے بیاں ہونے تک
ایسے لمحات گزرتے ہیں زماں ہونے تک

یہ اشعار ایک ایسے داخلی اضطراب کو مجسم کرتے ہیں جو خواہش اور حصول کے بیچ معلق رہتا ہے۔۔۔ یہاں "تمنا” اور "زماں” کا تصادم محض لسانی آرائش نہیں بلکہ ایک وجودی حقیقت ہے۔۔۔

ان کی شاعری میں کہیں زندان کی سی تنگی ہے تو کہیں فسانۂ عشرت کا ہلکا سا سراب۔۔۔ جیسے کہتے ہیں:

زندگانی کہیں زندان، کہیں عشرت ہے
تُو فسانہ ہے، حقیقت کے عیاں ہونے تک

اس شعر میں حیات کے دو متوازی پہلو یعنی قید اور آزادی، خواب اور حقیقت ایک ساتھ سامنے آتے ہیں۔۔۔ انسانی زندگی کی ناپائیداری اور حقیقت کا دُھندلا پن غفران کامل کے یہاں نہایت گہرائی سے محسوس ہوتا ہے۔۔۔

غم کے استعارے کو بھی وہ محض ایک جذبہ نہیں، ایک کائناتی کیفیت بنا دیتے ہیں۔۔۔ مثلاً:

دمِ غروب چمکتا ہوا ستارۂ غم
کہ جیسے اشک سرِ چشم استعارۂ غم

یہاں غم کا تصور ایک خارجی شے میں ڈھل کر شعری پیکر اختیار کر لیتا ہے۔۔۔ غم کی جمالیات، اس کا جمالیاتی استعارہ اور اس کی بصری تشکیل سب کچھ ایک اعلیٰ فن کارانہ شعور کا غماز ہے۔۔۔

غفران کامل کے یہاں فنا کی سرحد پر بھی بقا کا گمان باقی رہتا ہے۔۔۔ گویا فنا بھی ایک نئی تخلیق کا دروازہ ہے:

کوئی شعاعِ بقا ہے مِرے تعاقب میں
بہت عجیب دعا ہے مِرے تعاقب میں
فنائے ہست سے میں کالعدم نہیں ہوتا
خرامِ وقت رہا ہے مِرے تعاقب میں

یہ اشعار ایک عظیم روحانی ادراک کا مظہر ہیں۔۔۔ یہاں شاعر نہ تو فنا سے خائف ہے اور نہ بقا کا تمنائی۔۔۔ بلکہ وقت اور وجود کی ازلی مسافت میں ایک شعوری رقص ہے، جو غفران کامل کے فکری کمال کی بہترین دلیل ہے۔۔۔

غفران کامل کی شاعری محض الفاظ کی چمک دمک نہیں بلکہ ایک مکمل فکری اور روحانی کائنات ہے۔۔۔ وہ جدید غزل کا وہ سحر آفریں مسافر ہے جو روایت کی زمین پر جدیدیت کی روشنی لیے آگے بڑھ رہا ہے۔۔۔ ان کے اشعار میں جہاں عصری بے حسی کا نوحہ ہے، وہیں نئی صبح کا اعلان بھی ہے۔۔۔ وہ شاعر جو خوابوں کو ریزہ ریزہ جوڑتا ہے اور حقیقت کی دُھند میں ایک نئی معنویت تلاش کرتا ہے۔۔۔ غفران کامل اپنی فکر کی گہرائی، جذبے کی شدت اور زبان کی لطافت کے ساتھ جدید اُردو غزل کے اُفُق پر ایک درخشاں ستارا ہیں۔۔۔

پروفیسر توصیف راحت
صدر شعبۂ اردو، سپیریئر کالج جنڈ (اٹک)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button