
ملکی نظام اور اداروں پر مکمل بداعتمادی کا کھلا اظہار
پنجاب کالج لاہور کا واقعہ (عوام کی اکثریت کا ملکی نظام اور اداروں پر مکمل بداعتمادی کا کھلا اظہار)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تحریر :عابد حسین عابد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے تمام اداروں ، سیاستدانوں ، مذہبی رہنماؤں نے بڑی ” محنت ” سے اپنے کردار اور قول و فعل کے تضاد سے ایسی فضا تشکیل دے دی ہے کہ عوام کو اب کسی پر بھی اعتبار نہیں رہا۔ مسلسل جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ پولیس ، عدالت اور میڈیا طاقتوروں کے ہر جرم کے دفاع میں ڈھال بن جاتے ہیں۔ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہوئے شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ اگر کسی کی کوئی نہیں سنتا تو وہ اس ملک کا عام طبقہ یعنی ورکنگ کلاس ہے۔ چاہے ان سے کوئی جرم سرزد نہ بھی ہوا ہو، وہ جھوٹے الزام میں بھی سزا کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ پنجاب کالج کی طالبہ کا واقعہ بے شک جھوٹ ہو ، یہ خبر بے شک کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہو ، کسی کی سازش ہو یا محض افواہ عوام کی اکثریت اسے جھوٹ ماننے پر تیار نہیں۔ اسکی وجہ وہ بداعتمادی کی فضا ہے جو اس ملک کے بالادست طبقات نے خود قائم کی ہے۔ یہ واقعہ ہوا یا نہیں ہوا اس سے قطع نظر چند باتیں غور طلب ہیں۔
ایسے واقعات میں عموما” والدین بدنامی کے خوف سے کیس کی پیروی نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ کوٹ کچہری اور تھانے کے چکر لگا کر بھی انصاف نہیں ملنا۔ رسوائی الگ ہو گی۔ پھر بچی کے مستقبل کی بھی فکر لاحق ہوتی ہے کہ اس سے شادی کون کرے گا۔ وہ لڑکی کی تعلیم کا سلسلہ ہی بند کر دیتے ہیں۔ چند سال قبل میرے ملنے والوں کی لڑکی سے اسکی نند کی موجودگی میں گن پوائنٹ پر موٹر سائیکل سواروں نے زیور اتروا لیا۔ انہوں نے مجھے بھی فون کر کے بلوایا کہ آؤ ایف آئی آر کروانی ہے۔ جب لڑکی کا خاوند آیا تو اس نے کیس رپورٹ کروانے سے صاف انکار کر دیا کہ اب میری غیر موجودگی میں پولیس میری بیوی اور بہن سے الٹے سیدھے سوال کرے گی۔ ہمیں تھانے کے چکر لگانا پڑیں گے۔ ہونا پھر بھی کچھ نہیں ہے۔ ایسے کئی اور واقعات سے بھی ہم واقف ہیں کہ لوگ کیس درج نہیں کرواتے، قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ رہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ پولیس ، عدالت اور طاقتور لوگوں کا گٹھ جوڑ ہے جو عام لوگوں کو ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
پھر لوگ یہ بھی سوچتے ہیں جن طاقتوروں یا ریاستی اہلکاروں کے خلاف لواحقین نے کیس درج بھی کروایا ، کیا انہیں ریاست اور ریاستی اداروں نے انصاف فراہم کیا؟ تمام سرکاری مشینری تو لواحقین پر کیس واپس لینے صلح کرنے معاف کر دینے اور قتل کی صورت میں دیت لینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بصورتِ دیگر طاقتوروں کے اثر و رسوخ اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ بالآخر مدعی پارٹی کے عزیزو اقارب ہی یہ کہ کر حوصلہ توڑ دیتے ہیں کہ تمہاری کسی نے نہیں سنی بہتر یہی ہے جو ملتا ہے لے لو اور معاملہ رفع دفع کرو۔ ریمنڈ ڈیوس تو سب کو یاد ہی ہو گا۔ کس طرح سرکاری مشینری نے ورثا کے گھر پر ڈیرے ڈالے رکھے اور انہیں دیت لینے پر مجبور کیا۔ مزید کیسز کا حوالہ دیتا ہوں جس میں ملزم پارٹی بااثر ، طاقتور یا ریاستی اہلکار تھے۔ کیس درج ہونے کے باوجود ملزمان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
مصطفے کانجو ، زین قتل کیس
شاہ رخ جتوئی ، شاہ زیب قتل کیس
ساہیوال میں بچوں کے سامنے کارسوار والدین کا پولیس کے ہاتھوں قتل کیس منہاج القرآن کے کارکنوں کا سانحہ ماڈل ٹاؤن قتل کیس بلوچستان میں ایم پی اے کی گاڑی کا ایک وارڈن کو دن دیہاڑے کچل کر مار دینے والا کیس حالیہ کراچی کار حادثہ ملزمہ نتاشا کیس یہ سب وہ کیسز ہیں جن میں مدعی پارٹی کے لوگ عام شہری تھے اور ملزم پارٹی طبقہ اشرافیہ کے انتہائی بااثر ، طاقتور افراد تھے یا ریاستی اہلکار ۔۔ اگر پنجاب کالج کی طالبہ والا کیس محض ایک افواہ ہے ، جھوٹ پر مبنی من گھڑت واقعہ ہے تو لوگ پولیس کی وضاحت پر یقین کیوں نہیں کر رہے۔ ؟ اگر ایسا واقعہ ہوا ہے تو لڑکی اور اسکے گھر والے سامنے کیوں نہیں آ رہے؟ اب دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ عدم اعتماد کی ایسی فضا قائم کرنے میں قصور کس کا ہے؟ ریاست ، ریاستی اداروں ، طبقہ اشرافیہ یا افواہ سازوں کا ؟ دیت کے قانون کا فائدہ کسے ہے۔؟ بالادست طبقے کو جس کے لیے پانچ دس کروڑ روپے دینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جو ریاستی اداروں اور بااثر افراد کے ذریعے دباؤ ڈال کر دیے جاتے ہیں؟یا عام شہریوں کو جو وسائل نہ ہونے کے سبب دیت کی رقم ادا ہی نہیں کر سکتے۔ سوچیں اور کچھ ایسا کریں کہ عوام اس ملک، اسکے اداروں، اسکی لیڈرشپ پر اعتبار کر سکیں۔ تا کہ ہماری آنے والی نسلیں ایک بہتر انسانی معاشرے میں زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ پی ٹی آئی پر سارا ملبہ ڈال کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہ کریں۔ اپنا اعتبار بنائیں کہ لوگ آپ کی بات پر یقین کر سکیں۔ ایک ہی دن میڈیا پر نشر ہونے والی دو مختلف خبروں کا انداز دیکھئے ” پنجاب یونیورسٹی میں طالبہ کی خود کشی۔ لاہور کے ایک نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ جنسی زیادتی” آپ دیکھ سکتے ہیں، ایک واقعے میں سرکاری ادارے کا نام تو رپورٹ کر دیا۔ مگر دوسرے میں طاقتور ، با اثر میڈیا مالک ، سیاسی و کاروباری شخصیت کے ادارے کا نام جان بوجھ کر نہیں بتایا گیا۔ خبر کا یہ انداز قابلِ مذمت ہی نہیں قابلِ نفرت بھی ہے۔